آپ کے دشمن ہوگئے۔ مگر پھر کوئی کرشمہ قدرت دیکھ کر پشیمان ہوگئے اور اپنے گناہ کا اقرار کرتے ہوئے رجوع ہوگئے۔ میرے دوستوں کو چاہئے کہ ان کے حق میں سچے دل سے دعا کریں۔ میں بھی انشاء اﷲ دعا کروں گا۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۱ ص۱۱۰تا۱۱۲، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۹۳تا۲۹۵)
ناظرین! غور فرمائیے کہ مرزاقادیانی اپنے الہام کو صحیح ثابت کرنے کے لئے متارض عذر کر رہے ہیں۔ اس کے آگے میر صاحب کی علیحدگی کے وجوہات اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
مباحثہ دہلی میں شکست
اوّل… ’’یہ کہ میر صاحب کے دل میں دہلی کے مباحثات کا حال خلاف واقعہ جم گیا ہے۔ (یعنی وہ سمجھ رہے ہیں کہ میں دہلی میں اپنا دعویٰ ثابت نہیں کر سکا اور مناظرہ میں شکست کھاگیا ہوں۔ ناقل)
معجزات کا انکار
دوم… میر صاحب کے دل میں سراسر فاش غلطی سے یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ گویا میں ایک نیچری آدمی ہوں کہ معجزات کا منکر اور لیلتہ القدر کا انکاری اور نبوت کا مدعی اور انبیاء علیہم السلام کی اہانت کرنے والا اور عقائد اسلام سے منہ پھیرنے والا۔ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۹۸)
(میر صاحب کے یہ شکوک بالکل سچے ہیں۔ مرزاقادیانی واقعی معجزات لیلتہ القدر کے علاوہ بہت سی چیزوں کے منکر اور مدعی نبوت اور گذشتہ انبیاء کی توہین کرتے تھے) ان دووجوہات کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہے۔ جسے مصنف رئیس قادیان نے اپنی کتاب میں درج فرمایا ہے کہ:
شعبدہ کی قدر شناسی
ایک دفعہ لدھیانہ میں ایک شعبدہ باز نے مرزاقادیانی سے کہا کہ کوئی کمال دکھائیے یا دیکھئے۔ اس کے بعد شعبدہ باز نے کھرپی لے کر تھوڑی سی زمین نرم کی اور بیج بکھیر دئیے۔ تھوڑی ہی دیر میں چھوٹے چھوٹے پودے نکل آئے اور دیکھتے دیکھتے فٹ سے زیادہ اونچے ہوئے اور ۶،۷قسم کے پھول بن گئے۔ جن کے رنگ اور خوشبو ایک دوسرے سے علیحدہ تھی۔ یہ کمال دیکھ کر تمام پبلک اس کی گرویدہ ہوگئی۔ جب مرزاقادیانی کو کمال دکھانے کے لئے کہاگیا تو انہوں نے کہا کہ میں تو صرف دعا ہی کیا کرتا ہوں۔ اس کے بعد مرزاقادیانی نے میرصاحب کو کہا کہ سودوسوروپیہ دے کر بھی یہ کمال سیکھ لینا چاہئے۔ یہ سن کر میر صاحب کے دل میں گرہ بیٹھ گئی اور خیال آیا کہ یہ کیسا دنیا پرست مسیح ہے کہ شعبدہ گر کا مقابلہ کرنے کی بجائے شعبدہ ہی پر ریجھ رہا ہے۔