سے جس قدر مخالفین کی زبانیں دراز ہوں گی اور موافقین کے دلوں میں شبہات پیدا ہوںگے۔ اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ والسلام! خاکسار غلام احمد
مورخہ ۴؍نومبر ۱۸۸۸ء
(مکتوبات احمدیہ ج۲،نمبر۵ ص۱۲۸)
مرزابشیر احمد ایم اے سیرۃ المہدی جلد اوّل میں فرماتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے مریدوں کو تسلی دینے کے لئے اشتہاروں اور خطوط کی بھرمار کر دی اور لوگوں کو سمجھایا کہ الہام نے اس لڑکے کو مصلح موعود نہیں کہا تھا۔ یہ میرا صرف اجتہاد تھا۔ غرض لوگوں کو بہت سنبھالا دیا گیا۔ چنانچہ بعض (مرید) سنبھل گئے۔ لیکن اکثروں پر مایوسی کا عالم طاری تھا اورکئی خوش اعتقادوں کو ایسا دھکا لگا کہ سنبھل ہی نہ سکے۔ (یعنی مرزاقادیانی) کو چھوڑ گئے اور مخالفین میں پرلے درجہ کا استہزاد (مذاق) ہورہا تھا۔ پھر اس کے بعد عامتہ الناس (یعنی مریدوں) میں پسر موعود کی آمد کا اتنے جوش وخروش سے انتظار نہیں کیاگیا۔
تائبین کے نام
مرزابشیر احمد کے حوالہ سے ثابت ہوا کہ اس موقع پر اکثر مریدوں پر مایوسی چھاگئی اور بعض پھسل بھی گئے۔ لیکن انہوں نے پھسلنے والوں کا نام اور تعداد نہیں بتائی۔ صحیح تعداد کا تو ہمیں بھی علم نہیں ہے۔ لیکن کتاب رئیس قادیان کے حوالہ سے صرف لاہور کے چند مشہور مرزائیوں کا نام درج کرتے ہیں۔ جو اس الہام کو جھوٹا دیکھ کر مرزاقادیانی سے علیحدہ ہوئے تھے۔ اسی سے اندازہ لگالیجئے۔
۱… فتح علی شاہ ڈپٹی کلکٹر محلہ چابک سواراں لاہور۔
۲،۳… خواجہ امیرالدین، محمد الدین کوٹھی واراں کشمیری بازار لاہور۔
۴… میاں محمد چٹوپٹولی رئیس لاہور۔
۵… مولوی الٰہی بخش لاہور۔
۶… مولا بخش پٹولی لاہور۔
۶… حافظ محمد یوسف ضلع دار محکمہ انہار امرتسری لاہور۔
نوٹ: یہ سب نامی گرامی مرزائی اور مرزاقادیانی کے دست راست تھے۔
الہام مذکورہ کی مزید تفصیل… تین کو چار کرنے والا
بقول مرزابشیر احمد ایم۔اے مریدوںکی دلچسپیاں تو ختم ہوگئیں اور وہ مصلح موعود کی حقیقت سے آگاہ اور وجود سے مایوس ہوگئے۔ مگر مرزاقادیانی بدستور تاویلات میں مصروف