بڑی وجہ یہ ہے کہ کتاب مذکورہ مرزاقادیانی کی زندگی یعنی ۱۹۰۰ء میں طبع ہوئی تھی۔ لیکن مرزاقادیانی اس کے بعد اپنی ۸سالہ زندگی میں اس الزام کی تردید کی جرأت نہ کر سکے۔ بلکہ خاموشی معنی دارد کہ درگفتن نمے آید۔ کے مطابق اس الزام کو تسلیم کرایا۔
۲… مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے مناظرہ روپڑ منعقدہ ۲۱،۲۲؍مارچ ۱۹۳۲ء کے دوران میں مرزاقادیانی کو رشوت خور ثابت کرتے ہوئے علی اعلان کہا تھا کہ مرزاقادیانی نے جو اپنی دہلوی بیوی کوپانچ ہزار روپیہ کے زیورات پہنائے تھے وہ سیالکوٹ کی ناجائز کمائی کا سرمایہ تھا۔ (روئیداد مناظرہ روپڑ ص۳۵)
مولانا موصوف نے اپنی اسلامی جنتری میں بھی اس الزام کو دہرایا ہے۔ الزام مذکورہ بالا پر مندرجہ ذیل قرائن بھی بین ثبوت ہیں۔
مرزابشیر احمد اپنی کتاب (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۵۴) پر رقمطراز ہیں کہ: ’’ایک دفعہ سیالکوٹ میں ایک عرب نامی محمد صالح جاسوسی کے الزام میں گرفتار کئے گئے۔ ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں عرب مذکور کے بیان قلم بند کرنے کے لئے مرزقادیانی نے ترجمان کی خدمات سرانجام دیں۔‘‘
مرزابشیر احمد اس روایت کو اتنا ہی درج فرماتے ہیں۔ لیکن حکیم مظہر حسن قریشی سیالکوٹی اپنی مشہور کتاب (چودھویں صدی کا مسیح مطبوعہ ۱۳۱۷ھ ص۱۱) پر اسی روایت کو بالتفصیل بیان کرتے ہیں: ’’کہ مرزاقادیانی نے اس عرب کے سامنے (جب کہ وہ آپ کے دوست بن چکے تھے) اپنی قلیل تنخواہ اور مالی پریشان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نوکری سے گھبرا گیا ہوں۔ کوئی عمل بتائیے کہ نوکری کی ضرورت نہ رہے اور اس موضوع پر کافی دیر گفتگو ہوتی رہی۔ بالآخر مرزاقادیانی نے کہا کہ اور کچھ نہیں تو نوکری میں ترقی کا کوئی وظیفہ ہی بتا دیجئے تو عرب صاحب نے فرمایا کہ مرزاقادیانی آپ ملازمت میں ترقی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ آپ افسران بالا کی شکایت کرتے ہیں اور وہ آپ سے ناراض ہیں تو مرزاقادیانی نے ادھر سے مایوس ہوکر کہا کہ عرب صاحب! میرا ارادہ ہے کہ قانون کا مطالعہ کر کے وکالت کا امتحان دوں۔ وکالت میں معقول آمدنی ہے۔ عزت ہے آزادی ہے۔ اگر میں امتحان میں پاس ہوگیا تو بڑی کامیابی ہوگی۔‘‘ (بحوالہ رئیس قادیان)
نوٹ: کتاب چودھویں صدی کا مسیح بھی مرزاقادیانی کی زندگی میں ہی شائع ہوئی تھی اور مرزاقادیانی نے اس واقعہ کو غلط نہیں کہا۔
ناظرین! مولانا سیالکوٹی کا یہ اعتراض کافی وزنی ہے کہ مرزاقادیانی کے پاس وہ پانچ