میں بچہ ہوتا تھا تو بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ۔ میں گھر میں آیا اور بغیر کسی سے پوچھے ایک برتن سے سفید بورا جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کر منہ میں ڈال لی۔ بس پھر کیا تھا میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی۔ کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہیں تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ گھر میں میٹھی روٹیاں پکیں۔ کیونکہ حضرت صاحب کو میٹھی روٹی پسند تھی۔ جب حضرت صاحب کھانے لگے تو آپ نے اس کا ذائقہ بدلا ہوا پایا۔ مگر آپ نے اس کا خیال نہ کیا۔ کچھ اور کھانے پر حضرت صاحب نے کچھ کڑواہٹ محسوس کی اور والدہ سے پوچھا کہ روٹی کڑوی کیوں معلوم ہوتی ہے۔ والدہ صاحب نے پکانے والی سے پوچھا اس نے کہا کہ میں نے تو میٹھا ڈالا تھا۔ والدہ صاحبہ نے کہا کہ کہاں سے ڈالا تھا۔ وہ برتن لاؤ۔ وہ عورت ایک ٹین کا ڈبہ اٹھا لائی۔ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ کونین کا ڈبہ تھا اور اس عورت نے جہالت سے میٹھے کی بجائے روٹیوں میں کونین ڈال دی تھی۔ اس دن گھر میں یہ بھی ایک لطیفہ ہوگیا؟‘‘ (سیرۃ المہدی ج۱ ص۲۴۴،۲۴۵)
راکھ کھانے کو تیار ہوگئے
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحب نے کہ بعض بوڑھی عورتوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ سے روٹی کے ساتھ کچھ کھانے کو مانگا، انہوں نے کوئی چیز شاید گڑ بتایا کہ یہ لے لو۔ حضرت صاحب نے کہا میں نہیں۔ انہوں نے کوئی اور چیز بتائی حضرت نے پھر بھی یہی کہا میں نہیں۔
وہ اس وقت کسی بات پر چڑی بیٹھی تھیں۔ انہوں نے سختی سے کہا کہ جاؤ پھر راکھ سے کھالو۔ حضرت صاحب روٹی پر راکھ ڈال کر بیٹھ گئے اور گھر میں ایک لطیفہ ہوگیا۔ (والدہ کی اطاعت کا معنی بھی یہی ہے۔ مصنف)
یہ حضرت کے بالکل بچن کا واقعہ ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ نے یہ واقعہ سنا کر کہا کہ جس وقت اس عورت نے مجھے یہ بات سنائی تھی۔ اس وقت حضرت صاحب پاس تھے۔ مگر آپ خاموش رہے۔‘‘ (گویا تصدیق کر دی) (سیرۃ المہدی ج۱ ص۲۴۵)
گڑ اور ڈھیلے
’’آپ کو شیرینی سے بہت پیار ہے اور مرض بول بھی عرصہ سے آپ کو لگی ہوئی ہے۔ اس زمانہ میں آپ مٹی کے ڈھیلے بعض وقت جیب میں ہی رکھتے ہیں اور اسی جیب میں گڑ کے ڈھیلے