ان معزز الفاظ کی توہین ہے۔ وہ عام اخلاق جو ہر شریف انسان میں ہونے چاہیں آپ ان سے بھی عاری تھے۔ عہد شکنی، کذب بیانی، اختلاف بیانی، مغالطہ بازی، بہتان طرازی، مقدمہ بازی، دنیا پرستی، زن پرستی، حکومت پرستی، ہوس پرستی، آپ کی زندگی کے اہم عنوان ہیں۔
ان تمام امور کی وضاحت کے لئے ضروری تھا کہ مرزاقادیانی کی زندگی کو تاریخی رنگ میں پیش کیا جائے اور ان کی زندگی کے واقعات سے ان کا صدق وکذب ظاہر کیا جائے۔ میں نے اس کتاب میں مرزائی لٹریچر سے ہی مرزاقادیانی کی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ میں اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں۔ اس کا صحیح فیصلہ تو قارئین ہی کر سکیں گے۔
ہاں میں نے اپنی ذمہ داری کے پیش نظر کسی حوالہ میں خیانت، تحریف لفظی یا معنوی سے اپنے دامن کو داغدار نہیں ہونے دیا۔ کتاب مذکورہ کے جملہ حوالہ جات کی صحت نقل کا میں ذمہ دار ہوں۔ بایں ہمہ سہوونسیان کا قطعی انکار مناسب نہیں۔ اس لئے عامتہ المسلمین کے علاوہ اگر مرزائی صاحبان بھی اس سلسلہ میں کوئی نشاندہی فرمائیں تو میں بشکریہ قبول کروں گا۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
تقدمہ … از قلم شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل، گوجرانوالہ
’’الحمد ﷲ وکفٰی وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ‘‘
تیرھویں صدی کے اواخر میں اہل توحید اس فکر میں تھے کہ انگریز کے تسلط کی گرفت کو جس قدر جلد ممکن ہو ڈھیلا کر دیا جائے۔ علماء حق کی پوری توجہ اسی طرف لگ رہی تھی۔ اس وقت ظاہری بغاوت اور مسلح انقلاب کی کوششیں بظاہر ناکام ہوچکی تھیں۔ انگریز ۱۸۵۷ء میں جو انتقامی مظاہرہ کر چکا تھا۔ اس کی خواہش تھی۔ اسے برداشت کر لیا جائے یا کم ازکم ملک اسے بھول جائے۔
تحریک اہل حدیث کا یہ مقصد تھا کہ اگر انگریز ملک سے نکل نہ سکے تو اسے ہمیشہ کے لئے بے چین ضرور کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے تقسیم کار کے طور پر ایک گروہ نے بنگال، پنجاب اور یو۔پی، سی۔پی کے بعض اطراف سے ہجرت کر کے سوات بنیر کے اطراف میں علاقہ آزاد کو اپنے قیام گاہ کے لئے انتخاب فرمایا اور یہی ان کی کوششوں کا مرکز قرار پایا۔ ان لوگوں کو پورے متحدہ ہندوستان سے امداد پہنچتی تھی۔ ہزاروں روپیہ اس کشت زار کی آبیاری میں صرف ہوتا اور یہ سرحدی چوکیوں پر مسلح یورشیں کرتے تاکہ انگریز پریشان رہے۔ چنانچہ انہوں نے حسب طاقت اسے پریشان رکھا۔