بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
دیباچہ … پہلی نظر
مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کی جماعت کا لٹریچر، قرآن حدیث میں غیر ضروری ترمیم بلکہ تحریف کا مجموعہ ہے۔ منقولی مباحثات میں غلط حوالے تراجم اور غلط استدلال اس جماعت کا طرۂ امتیاز ہے اور ایسی غلط بنیاد پر تعمیر کئے جانا ان کے ہاں کوئی عیب نہیں۔ خود مرزاقادیانی اپنے مخالف علماء کی تحریرات اور باہمی مباحثات کی روئیداد میں اکثر ردوبدل کے عادی تھے۔ اس فن میں مرزاقادیانی کو کافی دسترس تھی۔ وہ اس قسم کے واقعات کو ایسا رنگ چڑھاتے تھے کہ قاری غیرشعوری طور پر محسوس کرتا کہ علماء کے پاس مرزاقادیانی کے دلائل کا کوئی جواب نہیں اور مرزاقادیانی کی شکست کے باوجود فتح کا گمان ہوتا۔ مباحثہ لدھیانہ، مباحثہ دہلی، پیر آف گولڑہ سے تفسیر نویسی، مولانا ثناء اﷲ کا سفر قادیان، اسی قسم کے واقعات ہیں کہ مرزاقادیانی کی شکست، فرار، انکار اور غیرحاضری کے باوجود وہ اپنے آپ کو سچے فاتح اور غالب ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
مرزاقادیانی کے لٹریچر کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے من گھڑت الہامات میں اتنی لچک رکھتے ہیں کہ وہ آنے والے ہر واقعہ پر چسپاں ہو سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہر پیش آمدہ حادثہ قادیاں کی الہامی پٹاری کے کسی کونہ میں بمد امانت رکھ لیا جاتا ہے۔ ہاں وہ الہامات جو متحدیانہ حیثیت میں پیش کئے گئے اور انہیں صدق وکذب کا معیار ٹھہرایا گیا۔ جب صاف طور پر غلط ثابت ہوئے تو اس قسم کے الہامات میں تحریف ترمیم یا اجتہادی غلطی کا عذر کر کے لچک کا کام لے لیا گیا۔ مثلاً مسٹر آتھم عیسائی کے سلسلہ میں ہر موافق مخالف جانتا ہے کہ ان کے لئے ۱۵ماہ میں مر جانے کا الہام تھا اور مدت مذکورہ کی آخری رات تک مرزاقادیانی اس کی موت کی انتظار بلکہ کوشش کرتے رہے۔ لیکن جب وہ نہ مرا تو اپنی ہی عبارات کی نئی نئی تشریحات شروع کر دی گئیں۔ پھر جب وہ مرزاقادیانی کی زندگی میں مرگیا تو فوراً لکھ دیا گیا کہ: ’’ہماری پیش گوئی یہی تھی کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے سچے سے پہلے مرے گا۔‘‘ (کشتی نوح ص۶، خزائن ج۱۹ ص۶ ملخص)
اس کے علاوہ قادیانی لٹریچر پر براہ راست نظر رکھنے والا فوراً اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ مرزاقادیانی اخلاقی حیثیت میں کسی اونچے مقام پر نہ تھے۔ ان کے بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے اکثر واقعات ایسے ہیں جن کی موجودگی میں ان کو مصلح، مہدی، مجدد وغیرہ القاب سے یاد کرنا خود