کے نام بھی نقشہ جات میں درج کئے جائیں جو درپردہ اپنے دلوں میں برٹش انڈیا کو دارالحرب قرار دیتے ہیں۔ لہٰذا یہ نقشہ اسی غرض کے لئے تجویز کیاگیا۔ تاکہ اس میں ان ناحق شناس لوگوں کے نام محفوظ رہیں جو اس باغیانہ سرشت کے آدمی ہیں۔ اگرچہ گورنمنٹ کو خوش قسمتی سے برٹش انڈیا میں ایسے لوگ معلوم ہو سکتے ہیں۔ جن کے نہایت مخفی ارادے گورنمنٹ کے برخلاف ہیں۔ اس لئے ہم نے اپنی محسن گورنمنٹ کی پولٹیکل خیرخواہی کی نیت سے اس مبارک تقریب پر یہ چاہا کہ جہاں تک ممکن ہو ان شریر لوگوں کے نام ضبط کئے جائیں جو اپنے عقیدے سے اپنی مفسدانہ حالتیں ثابت کرتے ہیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہماری گورنمنٹ حکیم مزاج بھی ان نقشوں کو ایک ملکی راز کی طرح اپنے کسی دفتر میں محفوظ رکھے گی۔ ایسے لوگوں کے نام مع پتہ ونشان یہ ہیں۔‘‘
(مندرجہ تبلیغ رسالت ج۵ ص۱۱، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۲۷،۲۲۸)
اﷲدتہ مرزائی صاحب! بتلائیے اب بھی غلام قادیانی کے غلام انگریز کے ہونے اور مرزائیت کے انگریزی استعمار کے خود کاشتہ پودا اور کفر کی کاسہ لیسی میں کوئی شبہ ہے؟ اور اگر ابھی تک کچھ شکوک وشبہات باقی ہیں تو ہمیں اطلاع دیں۔ ہم آئندہ آپ کی پوری تشفی کر دیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم ویسے ہی ان کی تشفی وتسلی کے لئے نیو رکھ چکے ہیں۔ تاکہ شاید اس سے کچھ حق کی متلاشی روحیں شقاوت ازلی سے بچ کر سعادت ابدی کو حاصل کر سکیں۔
آخر میں اس لطیفہ کا ذکر بے جا نہیں ہوگا کہ مرزائی پرچہ الفرقان ربوہ پر ترجمان الحدیث کی گرفتوں سے اس قدر بوکھلاہٹ طاری ہے اور مرزائیت کا بزدل برخود غلط خالد۱؎ اس قدر حواس باختہ ہے کہ اپنے اس پرچہ میں تقریباً دس مرتبہ ترجمان کا ذکر کرتا ہے۔ لیکن ماسوا ایک مرتبہ کے ہر دفعہ ترجمان کا نام تک غلط لکھتا ہے اور اس پرچہ کے ہر ہر صفحہ پر اور پرچے کے سرورق پر اتنے موٹے اور جلی قلم سے لکھا ہوا نام تک پڑھنا نہیں آیا۔ متنبی قادیان کی امت کے مقابلہ میں متنبی عرب کے اس شعر کو نقل کرنے کو کس قدر دل چاہتا ہے۔
انا صخرۃ الوادی اذا مازوحمت
واذا انطقت فاننی الجوزاء
(بحوالہ ترجمان الحدیث مئی ۱۹۷۱ئ)
۱؎ یاد رہے کہ اﷲدتہ مرزائی مدیر الفرقان کو مرزائیت کے خلیفہ ثانی اور مرزاغلام احمد قادیانی کے فرزند مرزامحمود نے خالد احمدیت کا لقب عطاء کر رکھا ہے۔ حالانکہ گیدڑ کو اگر شیر کی کھال پہنا دی جائے تو وہ شیر نہیں بن جاتا۔ اور یہاں چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک کا معاملہ بھی ہے۔