جنوری کے شمارہ میں اٹھائے گئے۔ سوالات اور اعتراضات کو چھوأ تک نہیں گیا اور مرزاغلام احمد قادیانی کے بارہ میں اس کی اپنی ذکر کردہ عبارتوں میں جس میں اس نے خود اپنے انگریز کے پروردہ اور انگریز کے غلام ہونے پر فخر ومباہات کیا ہے۔ ایسی تاویل کی ہے جو شاید مرزاغلام احمد قایدانی کو بھی سوجھی نہ ہوگی اور پھر قصداً اس بات سے گریز کیاگیا اور ان حوالہ جات سے اعراض کیاگیا جس میں انگریز کے لئے اپنی اور اپنی جماعت کی خدمات کا ذکر ہے اور ان خدمات کو ڈھانپنے کے لئے دیگر اسلامی فرقوں کے علماء اور اکابرین کے ایسے حوالے پیش کئے گئے ہیں۔ جن میں انگریز کے کسی اصلاحی کارنامے پر یا مخالفین کی طرف سے حکومت کو انگیخت کی چالوں کو ناکام بنانے کے لئے اپنی برأت کا ثبوت پیش کیاگیا ہے۔ اس کے برعکس ہم نے غلام قادیانی اور قادیانیت کو خود اس کے اپنے حوالوں سے نہ صرف انگریز کا مداح بلکہ پروردہ آلہ کار اور ایجنٹ ثابت کیا ہے۔ جسے الفرقان کا برخود غلط مدیر مدح پر محمول کر کے اپنے آقا اور اپنی امت کے انگریزی استعمار کی تخلیق ہونے پر پردہ ڈالنا چاہتا اور انگریز کے لئے اس گراں قدر خدمات کو چھپانا چاہتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارا اس موضوع پر مفصل مضمون تو پھر کبھی آئے گا۔ اس وقت صرف ایک حوالہ پیش خدمت ہے۔ جس میں الفرقان کے کج دل، کج دماغ اور کج فہم مدیر کے اعتذار اور فرار کے برعکس واضح طور پر انگریزی سرکار کی ذلہ خواری اور کاسہ لیسی کی گئی ہے اور متنبی قادیان انگریز کی اس خدمت میں اس حد تک آگے بڑھ گیا ہے کہ وہ اپنے ہی وطن کے سپوتوں اور اپنی ہی قوم کے جیالوں کے خلاف جاسوسی ایسے فعل قبیح سے بھی گریز نہیں کرتا۔ جس کی بناء پر نواب صدیق حسن خاںؒ ایسے حریت پسندوں اور مجاہدوں کے سرپرست اور مربی کو تخت ریاست سے معزول ہونا اور انواع واقسام کے محن اور فتن کا شکار ہونا پڑا اور مجاہدین آزادی کو کمک پہنچانے اور ان کی سپلائی لائن کو برقرار رکھنے کے لئے انہیں مصلحتاً انگریز کی خیرخواہی کے کلمات کہنے پڑے اور یہ داستان ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کی صداقت سے کوئی صاحب علم انکار نہیں کر سکتا اور اسی طرح ہندوستان میں مسلمانوں کے وکیل حضرت مولانا محمد حسین بٹالویؒ کو بھی ان بے گناہ معصوم لوگوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لئے انگریزی حکومت کو اطمینان دلانے کی ضرورت پیش آئی۔ جن کی رپٹ غلام قادیان ایسے انگریزی ایجنٹ اور مسلم کش ملت دشمن افراد تھانوں میں جاجا کر لکھوارہے تھے۔ چنانچہ اس کا ثبوت ہماری زبان سے نہیں، اپنے آقا کی زبان سے سنئے۔ غلام ہندی ولایتی آقاؤں کی خدمت اقدس میں گذارش پذیر ہے۔
’’چونکہ قرین مصلحت ہے کہ سرکار انگریزی کی خیرخواہی کے لئے ایسے نافہم مسلمانوں