مسلمانوں کو اپنی قیادت وسیادت کے مٹنے کا غم ہے کہ ہندوستان میں اس وقت مسلمانوں ہی کی حکومت تھی اور دوسری طرف ان کا دین۔ ان کی شریعت اور ان کے جذبات جہاد انہیں ہمیشہ غیرملکی کافروں کے غلبہ واستیلاء کے خلاف انگیخت کرتے اور برہم زن پر اکساتے رہیں گے اور پھر بالفعل برصغیر کے موحد مسلمانوں کا ایک گروہ اس کے خلاف برسرعمل اور برسر پیکار ہو بھی چکا تھا اور انگریز اس مٹھی بھر گروہ عشاق سے اس قدر ہراساں، لرزاں اور ترساں تھا کہ اسے ہندوستان کی سرزمین اپنے پیروں کے نیچے سے کھسکتی ہوئی معلوم ہونے لگی۔ موحدین کے نعرہ ہائے جہاد اس کے ایوانوں پر لرزہ طاری کرنے لگے اور دارورسن سے ان کے بوسہ ہائے شوق مؤمنوں کے دلوں کے تاروں سے اس طرح کھیلنے لگے جس طرح زخمہ ومضراب کے تاروں سے اٹھکیلیاں کرتے ہیں اور عین اس وقت جب کہ علماء اہل حدیث اور زعماء موحدین خنجروں کی نوک اور تلواروں کی دھار پر رقص کر رہے تھے اور سامراج کو برصغیر میں اپنا سورج ڈوبتا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس کے غدار اور ذلہ خوار اٹھے اور ان میں سے چند نے تو اس جماعت مقدسہ پر وہابیت کا لیبل چسپاں کر کے اس کی تحریک حریت کو دوسرے مسلمانوں تک پہنچنے سے باز رکھنے کی کوشش کی اور چند نے اس جذبے ہی کو ختم کرنے کی ٹھانی۔ جس کے نتیجہ میں یہ چنگاری پھر بھی کبھی بھڑک سکتی تھی۔ ہندوستان کی تحریک آزادی پر قلم اٹھانے والا کوئی مؤرخ اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک کہ وہ رک کر اہل حدیث کی عظمت ورفعت کو سلام نہ کر لے اور ان کے جذبہ جہاد اور ان کی بے پناہ قربانیوں کو خراج تحسین نہ پیش کرلے اور اسی طرح اس کی تاریخ تب تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ ان خائنوں اور انگریز کے خاندانی نمک خواروں کا تذکرہ نہ کر لے۔ جنہوں نے ان بدیشی کافروں کی خاطر اپنی ہر چیز کو داؤ پر لگا دیا اور اپنی ہر متاع کو فروخت کردیا تھا۔ چاہے وہ ضمیر ایسی گراں مایہ اور دین ایسی والا قدر شے ہی کیوں نہ ہو اور یہی سبب ہے کہ تاریخ کے اوراق ان دونوں کی تاریخ کو اپنے سینے میں محفوظ کئے ہوئے ہیں اور آج ہم اسی تاریخ کے صفحات کو الٹ اور اسی کے اوراق کو پلٹ رہے ہیں کہ کچھ سفیہان امت باطلہ،اور ابلہان کور چشم حقائق کو الٹانے، مٹانے اور چھپانے کے درپے ہیں کہ شاعری میں تو ہمیں گوارا ہے کہ یاران سرپل خرد کا نام جنوں اور جنوں کا نام خرد رکھ دیں اور ہم اسے آپ کے حسن کی کرشمہ سازی کہہ کر ٹال دیں۔ لیکن تاریخ میں گوارا نہیں۔ تاریخ کا ورق آپ کے سامنے ہے کہ: ’’۱۸۴۰ء کو قادیان کے ایک انگریز دوست اور مسلم دشمن خاندان میں جنم لینے والا چشم وچراغ پنجاب کے انگریز گورنر کے حضور اپنی پشتینی وفاداری کا ذکر ان الفاظ میں پیش کرتا ہے۔‘‘