حوالہ نہ ہو اور ان کے بارہ میں کسی غیرکا ذکر بھی نہ آئے۔ بلکہ جو کچھ ہو خود ان کے گھر سے ہو اور ذرا دیکھیں کہ اہل حدیث کو بیگانوں نے کیا کہا ہے اور مرزائیت اور مرزاقادیانی کو خود مرزاقادیانی اور اس کی امت کیا کہتی ہے۔
انگریز لٹیروں نے جب اسلامی ہند سے مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ کر کے اپنی سیادت کا تخت بچھایا تو جہاں اور محب وطن عناصر نے ان کے خلاف مورچہ بندی کی۔ مسلمان سب سے زیادہ ان کی راہ میں مزاحم ہوئے اور ہندوستان کے چپہ چپہ میں آزادی وحریت کی جنگ لڑی جانے لگی۔ انگریز نے اپنے لامحدود وسائل اور بے پناہ عسکری قوت کے ساتھ ساتھ ہندوستان ہی کے غدار اور ضمیر فروش لوگوں کی مدد ومعاونت سے اس بھڑکتے ہوئے الاؤ کو بجھا دیا اور راس کماری سے لے کر درہ خیبر تک پورے ملک ہند پر بلاشرکت غیرے قابض اور متصرف ہوگیا۔ لیکن اس شاطر سیاست نے اوّل روز ہی اس بات کو بھانپ لیا کہ اس جنگ کے جیتنے میں اس کے اسلحہ اور عسکر کی بجائے ہند کے غداروں اور خائنوں کا زیادہ حصہ ہے۔ اس لئے اس نے برصغیر میں جہاں اپنے جیوش پر خاص توجہ دی۔ وہاں ان عناصر کو ہمیشہ اپنے الطاف عنایات سے نوازتا رہا۔ جنہوں نے اپنے ملک اور اپنی قوم کے خلاف اس کی تائید وحمایت کی تھی۔ تاکہ آئندہ بھی ان کو ان کی ماں کے بیٹوں اور ان کے وطن کے سپوتوں کے خلاف استعمال کرتا رہے۔ اس کے نتیجہ میں وہ جماعت پیدا ہوئی جن کو جاگیر دار کہاجاتا ہے کہ دیس کے جیالوں اور باحمیت وباغیرت متوالوں کے خلاف جاسوسی اور سامراجی گوروں کے بوٹ چاٹنے کے عوض ان کو یہ جاگیریں عطاء ہوئی تھیں اور یہ وہی جاگیریں تھیں جنہیں اس ملک کے رکھوالوں سے اس جرم میں چھینا گیا تھا کہ وہ پردیسی لٹیروں سے نفرت اور ان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے تھے۔ ہندوستان میں استعمار کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے لوگ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ انگریزوں نے جہاں ایسے خائنوں اور ان کی اولاد پر ہمیشہ اپنا سایہ عاطف پھیلائے رکھا۔ وہاں اس امر کے لئے بھی کوشاں رہا کہ اس گروہ میں تازہ بتازہ اسیران حرص وآز کو بھی شامل کرتا رہے۔ کیونکہ وہ اس حقیقت سے بھی بے خبر نہیں تھا کہ ۱۸۵۷ء میں بھڑکنے والا شعلہ ابھی پوری طرح بجھا نہیں۔ بلکہ اس کے خاکستر میں ابھی کئی چنگاریاں سلگ رہی ہیں جو کسی وقت بھی آتش فشاں بن کر اس خرمن عزوجاہ کو جلاسکتی اور خاک سا بناسکتی ہیں۔ اس لئے وہ بدستور اس جوڑ توڑ میں لگا رہا کہ کوئی ایسی تدبیر نکالی جائے جس سے برصغیر میں اپنے اقتدار کو مستحکم اور قیام کو دوام بخشا جاسکے۔ اسے ہندوستان میں مجموعی طور پر جنگ آزادی کے بعد اگر کسی سے خطرہ تھا تو مسلمانوں سے تھا۔ کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ ایک تو