اور
اگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
اب آپ ہی بتلائیے کہ ایسے آدمی کا احترام کون کرے! وگرنہ ہماری آپ سے کئی دفعہ بحث ہوئی۔ ہم مذہب میں مشرقین کی دوری کے باوصف کبھی آپ کی بجائے تم پر نہیں اترے۔ الایہ کہ آپ بھی اپنے اسلاف کی اتباع میں اپنے امام کی سطح پر اتر آئیں تو مجبوراً ہم کو بھی یہ کہتے ہوئے قلم کو جنبش دینی پڑی ہو ؎
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے
سرکار! امید ہے کہ اب آپ کی تسلی ہوگئی ہوگی کہ دشنام طرازی میں ید طولیٰ مدیر ’’ترجمان الحدیث‘‘ نہیں بلکہ آپ کے امام واسلاف رکھتے ہیں۔ آخر میں اپنے مجدد کی زبان مبارک سے دو گالیاں اور سن لیجئے۔ تاکہ آپ کو علم ہوجائے کہ جس کی امامت کی آپ نے دھوم اور شریعت کا شور مچا رکھا ہے۔ وہ اخلاق عالیہ کے کس مقام بلند پر فائز ہے اور آپ کو احساس ہو جائے کہ دوسرے پروار کرنے سے پہلے اپنے گھر کو ضرور دیکھ لینا چاہئے۔ مرزاغلام احمد قادیانی اپنے برتن کا ڈھکنا اٹھاتا ہے۔ ’’مگر بقول شخصے ہر ایک برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۱، خزائن ج۲۳ ص۹)
’’کل مسلم… یقبلنی ویصدق دعوتی الاذریۃ البغایا‘‘ (اس سطر کی عربی عبارت میں جو غلطیاں ہیں۔ وہ مرزاغلام احمد قادیانی کی عربی دانی اور جہالت علمی پر شاہد عدل ہیں۔ حیرت ہے کہ بایں بے بضاعتی وبے علمی علم وحکمت کا وہ غرہ)
’’کہ تمام مسلمانوں نے مجھے مان لیا اور میری دعوت کی تصدیق کر دی۔ مگر کنجریوں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۷، خزائن ج۵ ص۵۴۷) اور: ’’اے (سعد اﷲ) کنجری کے بیٹے اگر تو ذلت کی موت نہ مرا تو میں سچا نہیں۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۲۸۲، خزائن ج۱۱ ص۲۸۲)
عشق میں تیرے فتنہ گررنج اٹھائے اس قدر
تکیہ کلام ہے مرا کوئی کرے وفا عبث
اسی پر عیسائیوں نے مرزائیوں کے بارہ میں یہ شعر کہا تھا ؎