مدیر ترجمان الحدیث ملکی سیاسیات کے بکھیڑوں میں الجھنے کے باعث ادھر توجہ نہ دے سکے گا اور اسی وجہ سے وہ ایام گذشتہ میں ہم پر مشق ناز فرماتے رہے۔ بقول غالب ؎
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
منشی جی! ہم کسی کو گالی دینے کے عادی نہیں اور گالی دینا گناہ سمجھتے ہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ گالی دینے والے کا احترام بھی ہمارے نزدیک گناہ سے کم نہیں۔مرزاغلام احمد قادیانی کے لئے اسی لئے ہمارے قلم سے احترام کا کوئی لفظ نہیں نکلتا کہ اس مرد شریف سے کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں رہی۔ ایک عام آدمی سے لے کر علماء فقہائ، ائمہ، محدثین اور صحابہ کرام (علیہم الرضوان) اور انبیاء عظام (علیہم السلام) تک اس کی دریدہ دہنی سے نہیں بچ سکے۔ اس لئے ہم مرزاقادیانی کی مزعومہ نبوت اور امامت تو درکنار اس کی شرافت تک کے قائل نہیں ہوسکے۔ کیونکہ خود اس کے اپنے الفاظ میں: ’’یہ بات نہایت قابل شرم ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر اخلاق رذیلہ میں گرفتار ہو اور درشت بات کا ذرا بھی متحمل نہ ہوسکے اور جو امام زمان کہلا کر ایسی کچی طبیعت کا آدمی ہو کہ ادنیٰ بات پر منہ میں جھاگ آتا ہے۔ آنکھیں نیلی پیلی ہوتی ہیں۔ وہ کسی طرح بھی امام زمان نہیں ہوسکتا۔‘‘ (ضرورۃ الامام ص۸، خزائن ج۱۳ ص۴۷۸)
اسی معیار پر جب ہم مرزاقادیانی کو پرکھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ نہ صرف تمام اخلاق رذیلہ اس میں پائے جاتے ہیں۔ بلکہ ادنیٰ بات پر منہ میں جھاگ آتا ہے اور آنکھیں نیلی پیلی ہوتی ہیں۔
ذرا دیکھئے تو سہی کہ اپنی کتاب نور الحق میں صفحہ نمبر۱۱۸ سے لے کر صفحہ ۱۲۲ تک پورے چار صفحات ایک ہی حرف سے بھرے ہوئے ہیں اور وہ ہے اپنے مخالفین پر لعنت، لعنت، لعنت، لعنت، لعنت، لعنت اور لعنت۔‘‘ استغفراﷲ! (نورالحق ص۱۱۸تا۱۲۲، خزائن ج۸ ص۱۵۸تا۱۶۲)
اﷲ کے بندے، اتنی بھی کیا جھاگ کہ پورے چار صفحوں کا ستیاناس کر دیا۔ اسی طرح اپنی کتاب شحنۂ حق میں پوری پوری دس سطریں مسلسل لفظ لعنت کے تکرار سے پر ہیں۔
(شحنۂ حق ص۶۱، خزائن ج۲ ص۳۸۷)
بھرم کھل جائے ظالم ترے قامت کی درازی کا
اگر اس طرہ پر پیچ وخم کا پیچ وخم نکلے