مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اسی نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳)
لاہوری مرزائیوں کے خطیب توجہ فرمائیں کہ ان کے اور ان کے مقتداء کے الفاظ وعبارات میں کس قدر تضاد اور تناقض ہے کہ وہ مسیحیت کو ملہمیت اور مجددیت کے معنوں میں لے کر اس سے نبوت کی نفی کرتے ہیں۔ جس کے نام پر یہ کھیل کھیلا جاتا ہے وہ خود یوں کہتے ہیں کہ وہ قرآن حکیم میں نفخ فی الصور جو فرمایا گیا ہے: ’’اس جگہ صور کے لفظ سے مراد مسیح موعود ہے۔ کیونکہ خدا کے نبی صور ہوتے ہیں۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۷۷، خزائن ج۲۳ ص۸۵)
’’اور اس فیصلہ کے لئے خدا آسمان سے قرنا میں اپنی آواز پھونکے گا۔ وہ قرنا کیا ہے؟ اس کا نام نبی ہوگا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۱۸، خزائن ج۲۳ ص۳۳۴)
اور یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جتنے حوالہ جات ہم نے نقل کئے ہیں۔ یہ سب کے سب ۱۹۰۱ء کے بعد کے ہیں۔ جب کہ مرزاغلام احمد قادیانی لوگوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسا چکے تھے اور مجددیت ومہدویت کے تدریجی مقامات بڑی چالاکی چابکدستی سے طے کر کے نبوت پر ہاتھ صاف کرنے کا اعلان کر چکے تھے اور صاف الفاظ میں کہہ چکے تھے: ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔‘‘
ان سب دلائل کے ہوتے ہوئے نہ جانے لاہوری مرزائی کیوں یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ مرزاقادیانی کے بارے میں لوگوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ معلوم احمدیہ بلڈنگ کے خطیب کیوں اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنے خطبوں میں اپنی پارٹی کو اکسا رہے ہیں کہ: ’’ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت صاحب (مرزائے قادیانی) کے صحیح مقام کو وسیع تر بنیادوں اور عظیم تر پروگرام کے تحت لوگوں کو روشناس کرایا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ حضرت صاحب (مرزاقادیانی) نے جو دعویٰ کیا ہے وہ چودھویں صدی کے مامور ومجدد ہونے کا ہی ہے۔‘‘
(مرزائی اخبار بدر مورخہ ۵؍مارچ ۱۹۰۸ئ)
حالانکہ اس تکلف کی قطعی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مرزاغلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت اپنے اندر کوئی اخفا اور اغماض نہیں رکھتا۔ رہ گئی بات مدیر پیغام صلح کے اصطلاحات کی تو حضور! اصطلاح اسے نہیں کہتے جسے آپ گھر بیٹھ کر گھڑلیں اور اسے نبوت اور نبی کے معنی سمجھنے کے لئے حجت قرار دیں۔ اگر نبی اور نبوت کی اصطلاح معلوم کرنی ہے تو امت مسلمہ کی کتابوں کی طرف