اور اسی کے ساتھ انہوں نے کہا تھا کہ: ’’ہم مرزاغلام احمد قادیانی کو مجدد مانتے ہیں۔‘‘
ہم نے اس پر عرض کیا تھا کہ ایک طرف تو آپ سید الاولین والآخرین، خاتم النبیین والمرسلین، رسول اﷲ الصادق الامین کے بعد دعویٰ نبوت کرنے والے کو لعنتی گردانتے ہیں اور پھر اسی کو مجدد مانتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہم نے مرزاغلام احمد کی اپنی عبارات پیش کی تھیں۔ جس میں انہوں نے صراحت کے ساتھ نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ بلکہ اپنے دعویٰ پر بتکرار مصر بھی ہیں اور دوسروں کو اس کے قبول کرنے پر زور بھی دیتے ہیں۔
لیکن پیغام صلح کے مدیر اور اس کے خطیب خواہ مخواہ لوگوں کو مبتلائے فریب رکھنے کے لئے اس بات کی تردید کر رہے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا اور جن عبارات میں دعویٰ نبوت کا ذکر ہے۔ وہاں نبوت سے حقیقی نبوت نہیں۔ بلکہ مجازی نبوت مراد ہے اور کہیں ہماری پیش کردہ عبارت ’’اس امت میں نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا اور تمام دوسرے لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
کی توجیہہ وتاویل میں اس طرح اپنی بوکھلاہٹ کا اظہار کیا کہ: ’’اس فقرہ میں بھی نبی کا نام پانے کا ہی ذکر ہے۔ منصب نبوت پر فائز ہونے کا نہیں۔‘‘ (پیغام صلح مورخہ ۳؍جولائی۱۹۶۸ئ)
پتہ نہیں پیغام صلح اس عبارت سے کون سی گتھی کو سلجھانا چاہتا ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے نبی کا نام پایا ہے اور منصب نبوت پر فائز نہیں ہوا۔ نبی نام بھی رکھاگیا اور پوری امت میں سے اس کے لئے مخصوص بھی کیاگیا۔ لیکن نبوت نہیں ملی؟ اس تضاد بیانی کے کیا کہنے! خداوند عالم نے خوب فرمایا ہے: ’’لو کان من عند غیر اﷲ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیرا‘‘
اصل میں لاہوری مرزائی خواہ مخواہ تکلف برتتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی نبی نہیں تھے اور ان کا ماننا ضروری اور فرض نہیں ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے دوراز کار تاویلیں تلاش کرتے ہیں۔ حالانکہ معاملہ بالکل واضح اور صاف ہے اور خود یہ بھی اندر سے اس بات کو مانتے ہیں۔ لیکن صرف اس بات کی وجہ سے کہ ان کے سربراہ اور مؤسس (مولوی محمد علی) کو مرزابشیر الدین محمود وغیرہ نے بددیانتی اور خیانت کے الزام میں قادیان سے نکال دیا تھا۔ اس کے انتقام میں انہوں نے مرزابشیر الدین قادیانی کے باپ مرزاغلام احمدقادیانی کو نبوت کا قولاً انکار دیا یعنی بیٹے کا انتقام باپ سے لیا۔ حالانکہ یہ خود اس حقیقت کے معترف تھے اور ہیں کہ مرزاقادیانی