اب ظاہر ہے مسلمان اس شخص کے بارہ میں کبھی اچھا نظریہ نہیں رکھ سکتے جو ان کے مطاع ومقتداء محمد اکرمﷺ کی فضیلت کو کم کرنا چاہے یا ان کے ارشاد کی تکذیب کرے اور پھر وہ ایسے لوگوں کو کیسے پسند کر سکتے ہیں یا ان کے بارے میں اچھی رائے رکھ سکتے ہیں جو ایسے آدمی کو خدا اور اس کے رسولﷺ کے فرامین کے بالکل برخلاف، نبی اور رسول مانتے ہیں اور پھر اس پر بھی اکتفا نہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زبان لعن وطعن بھی استعمال کرتے ہوں۔ اس لئے ہم اپنی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست پاکستان میں مسلمانوں کے مفادات کا لحاظ اور پاس رکھتے ہوئے ایسی تمام تحریرات کو ضبط کرے۔ جن سے مسلمانوں کے عقائد پر زد پڑتی ہو اور ان کے جذبات کو ٹھیس لگتی ہو اور جنہیں پڑھ کر ان کے قلوب واذہان جوش میں آجاتے ہوں۔ کیونکہ جب تک اشتعال انگیزی اور نفرت خیزی کے محرکات کا خاتمہ نہ کیا جائے گا اس وقت تک اشتعال ونفرت ختم نہیں کی جاسکے گی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کے پیروکار رسول اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کریں۔ مسلمانوں کو کافر اور جہنمی کہیں۔ ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کریں۔ ان کے پیچھے نماز ادا کرنے سے روکیں۔ ان سے شادی بیاہ کی ممانعت کریں اور مسلمان پھر اسے مسلمان ہی سمجھیں؟
مرزاغلام احمد قادیانی اپنی کتاب اعجاز احمدی میں لکھتا ہے: ’’لہ خسف القمر المنیر وان لی غسا القمر ان المشرقان اتنکر‘‘ اس کے (نبی کریمﷺ کے) لئے چاند گرہن کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں کا۔ اب کیا تو ان کا انکار کرے گا۔
(اعجاز احمدی ص۷۱، خزائن ج۱۹ ص۱۸۳)
اور مرزاقادیانی کا بیٹا بشیراحمد قادیانی تو یہاں تک گستاخی پر اتر آتا ہے کہ: ’’اگر نبی کریمﷺ کا انکار کفر ہے تو مسیح موعود (مرزائے قادیانی) کا بھی کفر ہونا چاہئے۔ کیونکہ مسیح موعود (مرزاقادیانی) نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے۔ بلکہ وہی ہے اور اگر مسیح موعود کا منکر کافر نہیں تو (نعوذ باﷲ) نبی کریم کا منکر بھی کافر نہیں۔ کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پہلی بعثت میں تو آپ کا انکار کفر ہو مگر دوسری بعثت میں بقول مسیح موعود ’’آپ کی روحانیت اقوی اور اکمل اور اشد ہے‘‘ آپ کا انکار کفر نہ ہو۔‘‘ (کلمتہ الفصل قادیان، مندرجہ رسالہ ریویو ج۱۴ نمبر۳ ص۱۴۷)
اور ایک اور دریدہ دہن گستاخ یہاں تک کہہ دیتا ہے ؎
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاںمیں