قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں۔ اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے۔ خدا کا کلام یقین کرتا ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۱۱، خزائن ج۲۲ ص۲۲۰)
نیز: ’’مجھے اپنی وحی پر ویسا ہی ایمان ہے۔ جیسا کہ تورات اور انجیل اور قرآن حکیم پر۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۸ ص۶۴، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۵۴، خزائن ج۱۷ ص۴۵۴)
اور مرزائیوں کا نامور مبلغ جلال الدین شمس مرزاغلام احمد قادیانی کے دعاوی واقاویل کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے: ’’ان حوالہ جات سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے الہامات کو کلام الٰہی قرار دیتے ہیں اور ان کا مرتبہ بلحاظ کلام الٰہی ہونے کے ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآن مجید تورات اور انجیل کا۔‘‘ (منکرین صداقت کا انجام ص۴۹)
اور چونکہ مرزائی مرزاغلام احمد قادیانی کے ہفوات کو کلام الٰہی کا درجہ دیتے اور قرآن حکیم کے مماثل قرار دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے اس نظریہ کو عقائد اساسی میں داخل کر لیا ہے کہ ہر وہ حدیث رسول ہاشمی علیہ السلام جو مرزاغلام احمد قادیانی کے مخالف ہو مردود اور غیر صحیح ہے۔ اگرچہ وہ بالذات صحیح ہی کیوں نہ ہو اور اس کے برعکس اگر کسی موضوع حدیث سے بھی مرزاغلام احمد قادیانی کے کسی قول کی تصدیق ہوتی ہو تو وہ حدیث صحیح اور مقبول قرار پائے گی۔ چنانچہ مرزامحمود گوہر افشاں ہے: ’’مسیح موعود (مرزاغلام احمد قادیانی) سے جو باتیں ہم نے سنی ہیں وہ حدیث روایت سے معتبر ہیں۔ کیونکہ حدیث ہم نے آنحضرت کے منہ سے نہیں سنی۔ پس سچی حدیث اور مسیح موعود کا قول مخالف نہیں ہوسکتے۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان مورخہ ۲۹؍اپریل ۱۹۱۵ئ)
اور انہی کے (اخبار الفضل مورخہ ۲۹؍اپریل۱۹۱۵ئ) کے شمارہ میں یہ بھی شائع ہوا کہ: ’’ایک شخص نے نہایت گستاخی اوربے ادبی سے لکھا ہے کہ احادیث، جنہیں ہم نے اپنے محدود ناقص عمل سے صحیح سمجھا ہے۔ ان کے مقابلہ میں مسیح موعود (غلام قادیانی) کی وحی رد کر دینے کے قابل ہے۔ اس نادان نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ اس طرح تو اسے مسیح موعود کے دعاوی صادقہ سے بھی انکار کرنا پڑے گا۔ وہ احادیث جن سے آپ کا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ یہ سب محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ مگر خدا کے مامور نے جب اپنے دعویٰ کاصدق الہامات کے ذریعے، پیش گوئیوں اور دیگر نشانات سے ثابت کر دیا تو پھر ہم نے آپ کو عدل وحکم مان لیا اور جس حدیث کو آپ (مرزاغلام احمد قادیانی) نے صحیح کہا وہ ہم نے صحیح سمجھی اور جسے آپ نے متشابہ قرار دیا۔ اسے ہم نے حکم کے تابع کر لیا اور جس حدیث کے بارے میں فرمایا یہ چھوڑ دینے کے قابل ہے۔ وہ چھوڑی، کیونکہ حدیث تو راویوں کے ذریعے ہم تک پہنچی اور ہم کو معلوم نہیں آنحضرتﷺ نے