پڑھنے لگے تھے۔ اس کتاب کو جو کھولا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ اب جبریل نزول نہیں کرتا۔ میں نے کہا۔ یہ غلط ہے، میرے ابا پر تو نازل ہوتا ہے۔ مگر اس لڑکے نے کہا کہ جبریل نہیں آتا۔ کیونکہ اس کتاب میں لکھا ہے۔ ہم میں بحث ہوگئی۔ آخر ہم دونوں مرزاقادیانی کے پاس گئے اور دونوں نے اپنا اپنا بیان پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کتاب میں غلط لکھا ہے۔ جبریل اب بھی آتا ہے۔‘‘
(الفضل قادیان مورہ ۱۰؍اپریل ۱۹۲۲ئ)
اور خود مرزاغلام احمد قادیانی رقمطراز ہے: ’’آمد نزد من جبریل علیہ السلام ومرابرگزید وگردش داد انگشت خود راو اشارہ کرد خدا ترا از دشنمان نگہ خواہد داشت۔‘‘
(مواہب الرحمن ص۶۳، خزائن ج۱۹ ص۲۸۲)
’’یعنی میرے پاس جبرائیل آیا اور اس نے مجھے چن لیا اور اپنی انگلی کو گردش دی اور یہ اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آگیا۔ پس مبارک وہ جو اس کو پاوے اور دیکھے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۰۳، خزائن ج۲۲ ص۱۰۶)
اور مرزائی صرف یہی عقیدہ نہیں رکھتے کہ جبرائیل امین علیہ السلام، مرزاغلام احمد قادیانی پر نازل ہوتے تھے۔ بلکہ ان کا نظریہ یہ بھی ہے کہ وہ وحی یا کلام ربانی لے کر نازل ہوتے تھے۔ بالکل اسی طرح کی وحی اور اسی طرح کا کلام جس طرح کا سرور دوعالمﷺ پر نازل ہوا کرتا تھا۔ اس لئے غلام قادیان پر نازل شدہ وحی کو ماننا بھی اسی طرح ضروری اور لازمی ہے۔ جس طرح قرآن حکیم ماننا ضروری تھا۔ چنانچہ مرزائی قاضی یوسف قادیانی لکھتا ہے: ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام (مرزاغلام احمد قادیانی) اپنی وحی، اپنی جماعت کو سنانے پر مامور ہیں۔ جماعت احمدیہ کو اس وحی اﷲ پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا فرض ہے۔ کیونکہ وحی اﷲ اسی غرض کے واسطے سنائی جاتی ہے۔ ورنہ اس کا سنانا اور پہنچانا ہی بے سود اور لغو فعل ہوگا۔ جب کہ اس پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنامقصود بالذات نہ ہو۔ یہ شان بھی صرف انبیاء کو حاصل ہے کہ ان کی وحی پر ایمان لایا جاوے۔ حضرت محمد رسول اﷲﷺ کو بھی قرآن شریف میں یہی حکم ملا اور ان ہی الفاظ میں ملا اور بعدہ حضرت احمد (مرزاغلام احمد قادیانی) علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ملا۔ پس یہ امر بھی آپ (مرزاغلام احمد قادیانی) کی نبوت کی دلیل ہے۔‘‘ (النبوۃ فی الالہام ص۲۸)
اور خود غلام قادیان کہتا ہے: ’’میں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں۔ جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں