یعنی یہ ذمہ داری کہ ہر دور میں اسلام کی نشرواشاعت اور دین حنیف کی سربلندی کے لئے کام کیا جائے اور قوم کو ان غلطیوں پر ٹوکا جائے۔ جن پر سرور کائناتﷺ نے نکیر فرمائی ہے۔ حضور اکرمﷺ کے نائبین پر عائد ہوتی ہے اور آپ کے حقیقی نائبین علماء ہیں۔ جیسا کہ بخاری شریف میں ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ان العلماء ورثتہ الانبیاء (بخاری، ترمذی ج۲ ص۹۷)‘‘ {علماء انبیاء کے وارث ہیں۔}
اور رب کریم نے بھی کلام حکیم میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ’’فلولا نفر من کل فرقۃ منہم لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومہم اذ اجعوا الیہم لعلم یحذرون (توبہ:۱۲۲)‘‘ {اور کیوں نہ نکلے ہر فرقہ میں سے ان کا ایک حصہ، تاسمجھ پیدا کریں دین میں اور تاخبر پہنچادیں اپنی قوم کو جب پھر پاویں ان کی طرف شاید وہ بچتے رہیں۔} (ترجمہ شاہ عبدالقادر)
اور حقیقت یہ ہے کہ مرزائیوں نے اس نظریئے کو کہ: ’’جب تک فساد باقی ہے نبی کی ضرورت باقی ہے۔‘‘
صرف مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت کے اثبات کے لئے فروغ دیا ہے۔ وگرنہ وہ کون سا فساد ہے جس کی مرزاغلام احمد قادیانی نے اصلاح کی ہے۔ جب کہ وہ خود سرچشمہ فساد اور منبع شر ہے اور یہ نہیں کہ اس عقیدہ کی اختراع مرزائیوں کے سر ہے۔ خود مرزاقادیانی کا یہ نظریہ نہ تھا۔ بلکہ وہ بھی یہی کہتا ہے کہ: ’’انعام خداوندی ہے کہ انبیاء آتے رہیں اور ان کا سلسلہ منقطع نہ ہو اور یہ اﷲ کا قانون ہے جسے تم توڑ نہیں سکتے۔‘‘ (ملخص از لیکچر سیالکوٹ ص۳۲، خزائن ج۲۰ ص۲۲۷)
اور پھر جب باب نبوت (اگرچہ نبوت کاذبہ ہی سہی) کھل گیا تو اس میں سب سے پہلے داخل ہونے والا خود مرزاغلام احمد قادیانی ہی تھا۔ اسی لئے مرزائی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی نہ صرف نبی اﷲ اور رسول اﷲ ہے بلکہ تمام انبیاء ومرسلین سے افضل واعلیٰ بھی ہے اور فخرالاولین والاخرین کے لقب سے ملقب بھی ہے۔ چنانچہ خود قادیانی اپنے اوصاف بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے کہ اس نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اسی نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳)