قریظہ وخیبر کے یہودیوں نے اس کا خوب خوب تجربہ کیا اور پھر اس کو اپنے اپنے وقت میں ہندوؤں، بدھ مت کے پیروؤں، آتش پرستوں اور سکھوں نے بھی دہرا کر دیکھا اور سب نے دیکھ لیا کہ یہ وہ چٹان ہے جسے نہ صرف یہ کہ پاش پاش کرنا ناممکن ہے ۔ بلکہ اسے چھیدنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ان تلخ وترش تجربات سے دشمنان دین نے یہ سبق حاصل کیا کہ اسلام سے کھلے بندوں ٹکر لینا اپنی موت کو دعوت دینا ہے کہ اس سے مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت ہوتی ہے اور ان کی غیرت وحمیت کو ٹھیس لگتی ہے۔ اس لئے انہوں نے طے کیا کہ آئندہ کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں کو کھلے میدان میں دعوت مبارزت نہ دی جائے۔ بلکہ ہمیشہ اسے مخفی سازش اور پوشیدہ چالوں سے زیر کرنے کی کوشش کی جائے۔ دھوکے اور منافقت کی تکنیک کو اپنایا جائے۔ اسلام کے نام لیواؤں میں سے اسلام ہی کے نام پر اسلام کی بیخ کنی کرنے والے تیار کئے جائیں اور اس طرح بتدریج اسلام کے افکار پر چھاپہ مارا جائے اور اس کی حقیقی تعلیم کو مٹایا جائے اور بالآخر اس کے وجود کو ختم کر دیا جائے۔
اسی پلان(Plan) اور تخطیط کے تحت قادیانیت کا وجود عمل میں لایاگیا۔ چنانچہ پہلے پہل یہ ایک اسلامی فرقے کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے نمودار ہوئی اور بڑی چابک دستی اور ہوشیاری سے اپنے زہریلے افکار وخیالات کا مسلمانوں میں پرچار کرنے لگی کہ عام لوگوں کو اس کی اصلیت کا علم نہ ہوسکا۔ پھر آہستہ آہستہ اور باقاعدہ ترتیب کے ساتھ کچھ اندرون خانہ باتوں کو سامنے لایا گیا اور جب دیکھا کہ چند ’’بے وقوف‘‘ اور کچھ ’’غرض مند‘‘ اچھی طرح جال میں پھنس گئے ہیں اور اب ان کے لئے فرار کا کوئی چارہ نہیں رہا، تو اچانک اپنے اصلی خدوخال کے ساتھ ظاہر ہوگئی۔ بہت سے لوگ جو اس تحریک کے ساتھ ناواقفیت کی بناء پر وابستگی اختیار کئے ہوئے تھے اور جن کے سینے میں ہنوز ایمان کی کوئی کرن باقی تھی۔ اس تحریک کو ایک مستقل مذہب کی صورت میں ڈھلتے دیکھ کر اپنی نادانی پر پریشانی کا اظہار کر کے چھوڑ گئے اور بہت سے ’’جاہل، فریب خوردہ اور خود غرض‘‘ دین اسلام اور محمد عربیﷺ سے رشتہ توڑ کر قادیانیت اور متنبی ہندی سے رشتہ جوڑ بیٹھے۔ یہیں سے قادیانیوں نے اپنے ولی نعمت انگریز کے اشارے پر ان تمام مراحل کو اپنی تبلیغ اور پراپیگنڈے کی بنیاد بنالیا کہ پہلے پہل تو مرزاغلام احمد قادیانی کو مجدد کہیں۔ پھر مسیح اور رسول اﷲ اور آخر میں تمام انبیاء سے افضل وبرتر نبی، تاکہ عام مسلمانوں کو فریب کا شکار بنایا جاسکے اور اسلام کے حقائق کو مسخ کیا جاسکے۔ اس لئے ضرورت تھی کہ ان کے اصل عقائد لوگوں کے