اور شاید اس سے بھی خوشنودی رب کا وہ پروانہ مل جائے جو مرزائیت پر عربی مقالات کو جمع کرنے کے بعد ملا تھا کہ جب ۱۹۶۷ء کے رمضان المبارک کی ستائیسویں شب مسجد نبویؐ کے پڑوس میں اپنی کتاب ’’القادیانیہ‘‘ کو مکمل کرکے سویا تو کیا دیکھتاہوں، سحر گاہ دعائے نیم شبی لبوں پر لئے باب جبریل علیہ السلام کے راستے (کہ دیار حبیب علیہ السلام میں میرا مکان اسی جانب تھا) مسجد نبویؐ کے اندر داخل ہوتا ہوں۔ لیکن روضہ اطہر کے سامنے پہنچ کر ٹھٹک جاتا ہوں کہ آج خلاف معمول روضہ معلّٰے کے دروازے واہیں اور پہرے دار خندہ رو، استقبالیہ انداز میں منتظر ہیں۔ میں اندر بڑھا جاتا ہوں کہ سامنے سرور کونین، رحمت عالم حضرت محمد اکرمﷺ رعنائیوں اور زیبائیوں کے جھرمٹ میں صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ کی معیت میں نماز ادا فرمارہے ہیں۔ دل خوشیوں سے لبریز اور دماغ مسرتوں سے معمور ہو جاتا ہے اور جب میں دیر گئے باہر نکلتا ہوں تو دربان سے سوال کرتا ہوں یہ دروازے تم روزانہ کیوں نہیں کھولتے؟
اور جواب ملتا ہے: ’’یہ دروازے روزانہ نہیں کھلا کرتے۔‘‘
’’یہ دروازے روزانہ نہیں کھلا کرتے۔‘‘ّ
اور آنکھ کھلی تو مسجد نبویؐ کے میناروں سے یہ دلکش ترانے گونج رہے تھے۔ ’’اشہد ان محمد رسول اﷲ۰ اشہد ان محمد رسول اﷲ‘‘ اور صبح جب میں نے مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر کو ماجرا سنایا تو انہوں نے فرمایا۔ تمہیں مبارک ہو کہ ختم نبوت کی چوکھٹ کی چوکیداری میں خاتم النبیینؐ کے رب نے تمہاری کاوش کو پسند فرمالیا ہے اورکون جانے میرا رب اسے بھی رسالت مآب علیہ السلام کی خدمت شمار فرمالے۔
کچھ اس کتاب کے بارہ میں
اس مجموعہ میں سب سے پہلے ایک طویل مضمون ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مرزائی عقائد اور مسلمان عقائد میں کیا فرق ہے اور بنیادی طور پر مسلمانوں اور مرزائیوں میں کس قدر دوری اور مغائرت ہے۔ اس کے بعد ’’الاعتصام‘‘ میں شائع شدہ مضامین ہیں جن میں کچھ وقتی اور ہنگامی تھے اور انہیں حذف کردیا گیا ہے۔
آخر میں ’’اہل حدیث‘‘ اور ’’ترجمان الحدیث‘‘ میں چھپے ہوئے مقالات ہیں۔ یہ مضامین اگرچہ جوابی ہیں۔ لیکن ان میں مرزائیت کے بارہ میں اس قدر متنوع مواد جمع کر دیاگیا ہے کہ شائد ہی اس کا کوئی گوشہ مخفی رہ گیا ہو۔ انداز بیان کی دلکشی کا اندازہ لگانا تو قارئین کا کام ہے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ آپ اسے دلچسپ پائیں گے۔ تحریر میں درشتی اور سختی جوابی ہے اور