چنانچہ قادیانیت اسی غرض کے لئے وجود میں لائی گئی اور اسلام دشمن اور مسلم دشمن قوتوں کے زیرسایہ اس کی پرورش وپرداخت کی گئی اور امت محمدیہ کے تمام دشمنوں نے مال اور دیگر وسائل سے اس کی مدد ومعاونت کی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انہیں بے انداز مال ودولت سے نوازا گیا۔ انگریز نے برصغیر میں ان تمام لوگوں کو اعلیٰ عہدے دئیے۔ جنہوں نے قادیانیت کو قبول کیا اور ان کے بچوں کو تعلیمی وظائف پیش کئے اور انہیں ہر ممکن سہولتیں بہم پہنچائی گئیں۔ ہندوؤں نے ان کی حمایت میں قلم اٹھائے اور تقریریں کیں اور ہر طرح سے ان کا دفاع کیا۔ اسی طرح یہودیت نے انہیں اسلام کے مسلمہ اصولوں اور مسلمانوں کے بنیادی معتقدات کے خلاف دلائل (خواہ وہ کتنے بودے ہی کیوں نہ تھے) اور لٹریچر سے مسلح کیا اور اب بھی بین الاقوامی صیہونیت اسرائیل میں قادیانی سنٹر کے ذریعہ اور افریقہ میں ان کے مراکز کے توسط سے ان کی بھرپور مدد ومعانت کر رہی ہے۔
بہرحال تمام دشمنان رسالت مآب نے اپنی اپنی کوشش وکاوش ان کی ترقی وترویج میں صرف کی اور اس سے ان کا مطلوب ومقصود صرف اور صرف یہ تھااور ہے کہ مسلمانوں کو اس مجاہد اور قائد رسولؐ سے دور کر دیا جائے۔ جن کا اسم گرامی آج بھی کفر پر کپکپی اور لرزا طاری کر دیتا ہے۔ جن کی ہیبت اور جن کے دبدبہ سے آج بھی ایوان ہائے کفر میں زلزلہ بپا ہو جاتا ہے۔ جب کہ انہیں رفیق اعلیٰ کے پاس گئے ہوئے بھی چودہ صدیاں گذر چکی ہیں۔
اور وہ زندہ وتابندہ تعلیمات والا نبی مکرمؐ کہ جس کی امت آج بھی اپنے دور انحطاط وزوال میں مجرموں اور اسلام دشمنوں کے حلق میں کانٹا بنی ہوئی ہے اور جن کی بیداری کا مجرد تصور ہی ملحدوں، مشرکوں اورلامذہبوں کی آنکھوں کی نیند اڑادینے کے لئے کافی ہے اور دشنمان دین اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ وہ تب تک سکون وچین حاصل نہیں کر سکتے۔ جب تک کہ محمد عربی علیہ السلام ایسے قائد، رہنما اور راہبر کی لازوال تعلیمات کو ختم نہیں کیاجاتا۔ وہ تعلیمات جو آج بھی مردوں میں روح پھونکتی اور قوموں کے لئے صور اسرافیل کا درجہ رکھتی ہیں اور اگر ان کا خاتمہ ممکن نہیں تو کم ازکم انہیں تبدیل کئے بغیر ان کی معنویت کو نیست کئے سوا، انہیں اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔
اس کا بہترین طریق یہ ہے کہ قادیانیت ایسے گمراہ فرقوں اور مذاہب کی ہر طرح سے مساعدت ومساندت کی جائے۔ اسی بناء پر ایک نامور ہندو ڈاکٹر شنکر داس اپنے ہندو بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’سب سے اہم سوال جو اس وقت ملک کے سامنے درپیش ہے۔