تنقید
مرزاقادیانی کی رنگینی عبارت قابل غور ہے۔ مرزاقادیانی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چاروں بھائیوں اور دونوں حقیقی ہمشیر کی بھی عزت کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ سب مریم بتول کے پیٹ سے ہیں اور مجبوریاں تھیں جن کے باعث بی بی مریم نے یوسف نجار سے نکاح کر لیا۔ العیاذ باﷲ!
قابل بحث وہ مسئلہ ہوا کرتا ہے جس میں کوئی خفا، اشکال یا اجمال ہو۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ السلام کی ولادت کو قرآن کریم نے جس صراحت اور وضاحت سے بیان کیا ہے۔ عربی زبان سے معمولی واقفیت رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن ’’لہم قلوب لا یفقہون بہا‘‘
اظہار حقیقت خداوند کریم نے حضرت آدم علیہ السلام کو والدین کے بغیر پیدا کر کے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار کرتے ہوئے انسانی بنیاد ڈالی۔ بعدہ توالد اور تناسل کے سلسلہ کو مرد اور عورت کے میل جول پر موقوف رکھا گیا۔ جو ’’انا خلقنا کم من ذکر وانثی‘‘ {تحقیق ہم نے پیدا کیا تم کو مرد اور عورت سے۔} سے ثابت ہوتا ہے۔
لیکن جب دہریت کے دلدادہ انسان عالم کو قدیم اور محض والد کو ہی اولاد کے پیدا کرنا میں موثر کامل سمجھنے لگے تو قدرت رب قدیر جوش میں آئی۔ اس اظہار قدرت کے لئے ایسی معصومہ اور مطہرہ عورت کا انتخاب کیاگیا۔ جسے قرآن کریم میں صدیقہ کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے اور جس نے زمانہ طفولیت میں انوار وبرکات ایزدی میں نشوونما پائی۔ حضرت زکریا نے کہا ’’یامریم انّی لک ہذا قالت ھو من عند اﷲ‘‘ {ائے مریم یہ کہاں سے آئے ہیں۔ مریم نے کہا خدا کی طرف سے۔}
بی بی مریم کی آثار بہشتی سے محض اس لئے پرورش کی گئی تاکہ اس میں خواہشات نفسانی کا مادہ ہی نہ پیدا ہو۔ گویا خداوند کریم نے اس وقت کے سکان ارض میں سے کسی فرد کو بی بی مریم کے خاوند ہونے کے قابل نہ سمجھا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس معصومہ بی بی کے پیٹ سے بغیر باپ کے پیدا فرمادیا۔ اس قدرت ایزدی کی حقیقت تک ظاہر بین انسانوں کا عقل نارسانہ پہنچ سکا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا تصور کرنے لگے۔ باوجود اس شرک میں مبتلا ہونے کے بی بی علیہا السلام کی پاکیزگی اور عصمت پر کوئی دھبہ نہ دیا۔ لیکن آج مرزاقادیانی کو بی بی مریم علیہا السلام کے نکاح کا الہام ہونے لگا۔ نعوذ باﷲ من ذالک!