کے تالیف تک جلد دوم کے ۴۱مقابیس زیراصلاح وتصحیح آچکے ہیں۔ چھ مقابیس جلد دوم کے رہ گئے ہیں اور مولوی رکن دین نے جلد سوم کی آخیر میں تحریر کردیا۔ ’’ایں جلد سوم از اوّل تاآخر بجناب اقدس حضور خواجہ ابقاہ اﷲ تعالیٰ بقاہ سبق بہ سبق خواندہ ام!‘‘
(یعنی اس تیسری جلد کو اوّل سے آخر تک حضور قبلہ اقدس کی خدمت میں میں نے سبق بہ سبق پڑھا ہے) الاماں اور نہ جلد چہارم میں اس جلد سوم کی تصحیح کا ذکر کیاگیا ہے۔ ان امور سے ثابت ہوتا ہے کہ جلد سوم حضور قبلہ اقدس کی خدمت میں قطعاً پیش نہیں کیاگیا۔
نصوص قطعیہ
جس وقت صاحبزادہ محمد عبدالعلیم خان صاحب امیر ریاست ٹونک، اشارات فریدی کے پہلے تین جلد طبع کراکے حضور اقدس، شمع شبستان ہدایت، مرکز فلک الولایۃ، واقف رموز فریدت شیخ المشائخ مولانا خواجہ محمد بخش صاحب نازک کریم غریب نواز کی خدمت سراپا برکت میں پیش کرتا ہے تو آپ تیسری جلد کا ملاحظہ فرمانے کے بعد مؤلف ملفوظ مولوی رکن دین سے سخت رنجیدہ ہوتے ہیں اور اس جلد ثالث کی اشاعت سے بھی منع فرمادیتے ہیں۔
بدیں طور حضور اقدس المشائخ، مقتدائے عارفین، قدوۃ الکالمین، مرشدنا ومولانا حضرت خواجہ معین الدین قدس سرہ العزیز کے زماں فیض اقتراں میں بھی مولوی رکن دین کے اس فعل کو بے حد ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ چونکہ اس زمانہ میں مرزائی صاحبان نے اس قسم کے پراپیگنڈوں یعنی حضور قبلہ اقدس کے متعلق ایسی بے بنیاد اور غلط اشاعت کرنے سے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی تو اس جانب سے بھی تردید افترایات مولوی رکن دین میں کوئی خاص طریق اختیار نہ کیاگیا۔ لیکن مریدان ومعتقدان کو اس بہتان عظیم سے مکمل آگاہ کردیا گیا۔
چنانچہ تاجدار کشور یقین، سند الکاملین، مولانا خواجہ فیض احمد صاحب سجادہ نشین کی خدمت سراپا برکت میں مشرب فریدی کے مقتدر حضرات (حضرت قدوۃ الاصفیاء مولانا محمد یار صاحب وحضرت مولانا امام بخش صاحب جام پوری ومولانا فاضل اجل سراج احمد صاحب ساکن مکہن بیلہ ومیاں الہ بخش صاحب خلیفہ ساکن چاچڑاں شریف) نے بطور شہادت بیان کیا ہے کہ حضرت غریب نواز، شیخ المشائخ، قطب مدار زماں خواجہ محمد بخش صاحب نازک کریم نے بوقت ملاحظہ اشارات فریدی جلد سوم ارشاد فرمایا تھا۔ ’’میاں رکن دین نے ملفوظ شریف (اشارات فریدی) جمع کر کے اپنی نجات کا اچھا سامان کیا تھا۔ مگر مرزاغلام احمد قادیانی کے متعلق جو افترأت درج کئے ہیں اپنی محنت بھی رائیگان کی ہے اور آخرت بھی۔‘‘