۱۴۱… ’’اس عاجز کی طرف سے یہ دعویٰ نہیں ہے کہ مسیحیت کا میرے وجود پر ہی خاتمہ ہے اور آئندہ کوئی مسیح نہیں آئے گا۔ بلکہ میں تو مانتا ہوں اور باربار کہتا ہوں کہ ایک کیا دس ہزار سے بھی زیادہ مسیح آسکتا ہے اور ممکن ہے کہ ظاہری جلال واقبال کے ساتھ بھی آجائے اور ممکن ہے کہ اوّل وہ (مسیح) دمشق میں ہی نازل ہو۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۹۴، خزائن ج۳ ص۲۵۱)
۱۴۲… ’’سچے مسیح نے اس زمانہ میں آنے کا ہرگز وعدہ نہیں کیا۔ جو جنگ وجدل اور جوروجفا کا زمانہ ہو۔ جس میں کوئی شخص امن سے زندگی بسر نہ کر سکے اور نیک لوگ پکڑے جائیں اور عدالتوں میں سپرد کئے جائیں اور قتل کئے جائیں۔ بلکہ مسیح نے صاف لفظوں میں فرمادیا تھا کہ ان پر فتنہ زمانوں میں جھوٹے مسیح … پیدا ہوںگے۔ جیساکہ ان سے پہلے زمانوں میں کئی لوگ ایسے پیدا بھی ہوچکے ہیں۔ جنہوں نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس وجہ سے مسیح نے تاکید سے کہا کہ میرا آنا ان اوائل زمانوں میں ہرگز نہیں ہوگا اور شور اور فساد اور جوروجفا اور لڑائیوں کے دنوں میں ہرگز نہیں آؤں گا۔ بلکہ امن کے دنوں میں آؤں گا۔ یہ ایک نہایت عمدہ نشان ہے۔ جو مسیح نے اپنے آنے کے لئے پیش کیا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۸، خزائن ج۳ ص۱۳۱)
نوٹ: ہاں صاحب! فی الواقع یہ ایک نہایت ہی عمدہ نشان ہے۔ جو حضرت مسیح نے اپنے آنے کے کے لئے ہی پیش کیا ہے اور ہم اس نشان کو بدل وجان تسلیم کرتے ہیں۔ چونکہ یہی ایک نشان ہے جو قادیانی مسیح کی خانہ ساز مسیحیت پر ایک ضرب کاری ہے اور یہی وہ نشان ہے جو قادیانی مسیحیت کو واقعات کی روشنی میں روز روشن کی طرح باطل ثابت کر رہا ہے۔ اب سوال ہے کہ یہ زمانہ کس مسیح کا ہے؟ تو مرزاقادیانی جواب میں فرماتے ہیں کہ اس زمانہ کا مسیح میں ہوں۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔
۱۴۳… ’’اس زمانہ کے لئے میں مثیل مسیح ہوں اور دوسرے کی انتظار بے سود ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۹۹، خزائن ج۳ ص۱۹۷) ’’ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت جو ظہور مسیح موعود کا وقت ہے۔ کسی نے بجز اس عاجز کے دعویٰ نہیں کیا کہ میں مسیح موعود ہوں۔ بلکہ اس مدت تیرہ سو برس میں کبھی کسی مسلمان کی طرف سے ایسا دعویٰ نہیں ہوا کہ میں مسیح موعود ہوں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۸۳، خزائن ج۳ ص۴۶۹)
(یہ غلط ہے۔ دیکھو بہاء اﷲ ایرانی نے مرزاقادیانی سے قبل دعویٰ کیا۔ جس کی کافی تعداد میں آج بھی امت موجود ہے) (مجموعہ تقریر ص۴۵)
نوٹ: اور یہ زمانہ کہ جس میں مرزاقادیانی نے بزعم خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا