اے غلامان محمدؐ! یقین جانئے کہ یہ خطہ پاک منعم حقیقی کی جانب سے بطور انعام، بطفیل نام محمد ہی ملا ہے۔ اگر اس میں نام محمد اور باب ختم نبوت کا تحفظ نہیں تو انتقام قدرت کی قہر بار اور غضب آلود برق آسمانی سے یہ سب کھیل ختم، انجام کار، کفران نعمت کی یہی سزا ہے… ہائے… وہ دیکھو! دم بریدہ سگان برطانیہ، روز روشن میں محبوبؐ خدا، سردار دوسرأ، مکین گنبد خضرا، صاحب شفاعت کبریٰ، خاتم الانبیاء علیہم السلام کی نبوت حقہ پر کس طرح حملہ کر رہے ہیں اور غلامان محمدؐ، توہین نبوت کا خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ سوال ہے؟ کہ ایسا کیوں ؎
یہ دین سے بیزاری آقاؐ سے بغاوت کیوں
دعوائے نبوت ہو، خاموش حکومت کیوں
اے اراکین حکومت! آپ نور فراست اور چشم بصیرت سے تاریخ اسلامیہ کا مطالعہ فرمائیں۔ تا آپ کو معلوم ہو کہ مسیلمہ کذاب سے لے کر قادیانی دجال تک جس قدر بھی مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر جھوٹی نبوت ورسالت، مسیحیت ومہدویت وغیرہ کے مدعیان، کذاب ودجال، ضال ومضل، فتّٰان ومفسد اور زندیق ومرتد پیدا ہوئے ہیں۔ ان سے مسلمانان عالم کو کس قدر ملکی وملی نقصان پہنچا ہے۔
دور نہ جائیے، فتنہ بہائیت کو ہی دیکھ لیجئے۔ جس نے آج سے قریباً ایک صدی قبل سرزمین ایران میں دعوائے رسالت، مسیحیت اور مہدویت کی آڑ میں خوفناک طریق پر ایک فتنہ عظیم برپا کیا تھا۔ جس کا بالآخر ایران کی اسلامی حکومت نے بزور شمشیر قلع قمع کیا اور باقی ماندہ اس فرقہ کے افراد بشکل روپوشی غیر ممالک میں بھاگ گئے۔
دراصل اختتام نبوت حقہ کے بعد اس قسم کی تمام نبوت خیز اور تقدس آمیز تحریکوں کا مقصد وحید اپنا سیاسی تفوق وعروج اور عالم اسلام کی قومی وملی شان وحدت کا تنزل وخروج ہوتا ہے۔ اگر خدانخواستہ بروقت ان تحریکات باطلہ کا انسداد نہ کیا جائے تو بعد میں بغاوت نما اور قیامت آسا نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ مفکر اسلام علامہ اقبالؒ تاریخ اسلام کا ایک ورق پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’جب ہم اس زمانے کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کو یہ کم وبیش ایک سیاسی بے چینی کا زمانہ نظر آتا ہے۔ آٹھویں صدی کے نصف آخر میں اس سیاسی انقلاب کے باوجود جس نے سلطنت امیہ (۷۴۹ھ) کو الٹ دیا تھا اور بھی واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ جیسے زنادقہ،