بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
پیش لفظ
’’نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۰ اما بعد‘‘
کسی قوم کے سربراہ یا کسی گروہ کے لیڈر یا ممتاز ہستی پر کلام کرنا، عیب لگانا یا طعنہ زنی کرنا نہ ہمارا مقصد ہے اور نہ ہونا چاہئے۔ لیکن کسی حق کے متلاشی کے سامنے حق کو باطل سے تمیز کر دینا اور صحیح طریقہ کو غلط طریقہ سے واضح کر کے دکھلانا ایک مسلمان کے لئے صرف مناسب ہی نہیں بلکہ عقلاً وشرعاً واجب اور نہایت ضروری بھی ہے۔ تاکہ وہ باطل کو حق اور غلط کو صحیح سمجھ کر بے راہ روی اختیار نہ کرے اور آخر کار اپنی عاقبت کو خراب نہ کر بیٹھے۔
لہٰذا ایسے شخص کے لئے یہ چند سطور قلم بند کی جارہی ہیں جو انصاف پسندی کے ساتھ تعصب کو بالائے طاق رکھ کر حق بات کو سمجھنا اور صحیح راستہ کو اختیار کرنا چاہتا ہو۔ کیونکہ جس نے تعصب کے دلدل میں پھنس کر حق سے قصداً اپنی آنکھ بند کر لی ہو اور کسی طرح بھی نہیں چاہتا ہو کہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آئے تو اس کے لئے یہ چند سطور کیا ہزار دفتر بھی کافی نہیں۔ تعصب اور ضد ہی ایک ایسی لاعلاج بیماری ہے جس کی صحت کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر ہونے والا نہیں۔ لہٰذا ہمارا روئے سخن ایسے شخص کی طرف ہرگز نہیں بلکہ اوّل الذکر شخص ہی کی طرف ہے۔ اگر ان کو کچھ نفع پہنچا تو یہ اﷲتعالیٰ کی بڑی عنایت ہے۔ ہدایت انہی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ’’ان ارید الاصلاح ما استطعت وما توفیقی الا باﷲ‘‘
پہلے چند معروضات پیش کرنے کے بعد انشاء اﷲ تعالیٰ ہم اصلی مقصد کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ سو جاننا چاہئے کہ کوئی شخص کسی بلند مقام یا مرتبت کا دعویدار ہو اور اس میں لائق دعویٰ یا قابل اعتبار کوئی خوبی یا بھلائی بالکل نہ ہو یہ بات عقلاً اگر محال نہیں تو مستبعد ضرور ہے۔ لیکن یہ چیزیں موجود ہونا ہی اس کے کسی گروہ یا قوم کے مقتداء وپیشوا بننے یا بنایا جانے کے لئے کافی بھی ہے؟ یہ بات ہرگز قابل قبول نہیں، بلکہ اگر کوئی کسی کو اپنا مقتداء یا کسی کی حیات کو اپنی مشعل راہ بنانا چاہے تو اس پر اوّلین فریضہ یہ عائد ہوتا ہے کہ اس کی پوری زندگی کا گہرا مطالعہ کیا جائے اور اس کے ہر ہر فعل کو امتحان کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔ تاکہ مبادا کبھی ایسا نہ ہو کہ زہر کو شہد سمجھ کر پی رہا ہو اور اس کو خبر تک بھی نہ ہو۔ پھر نتیجہ میں آہستہ آہستہ جان کی رگیں کاٹ دی جائیں اور اس کو ابدی