نبی بعدی (رواہ ابوداؤد ج۲ ص۱۲۷، ذکر الفتن ودلائلہا)‘‘ {کہ حضرت رسول اﷲﷺ نے فرمایا۔ میری امت میں تیس جھوٹے نبوت کے دعویدار پیدا ہوںگے۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔}
قرآن وحدیث آں سرور کائناتﷺ کی ختم نبوت کے بیان سے بھرے ہوئے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰ ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیما (احزاب:۵۰)‘‘ {(حضرت) محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں۔ (یعنی نسب کے اعتبار سے) مگر ہاں وہ اﷲتعالیٰ کے رسول اور آخر النبیین ہیں اور اﷲ تعالیٰ ہر شے کی مصلحت کو خوب جانتا ہے۔} یعنی آپﷺ کی تشریف آوری سے نبیوں کے سلسلہ پر مہر لگ گئی۔ اب کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی۔ بس جس کو ملنی تھی مل چکی۔ اسی لئے آپؐ کی نبوت کا دور سب نبیوں کے بعد رکھا جو قیامت تک چلتا رہے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آخیر زمانہ میں بحیثیت آپؐ کے امتی کے تشریف لائیں گے۔ خود ان کی نبوت ورسالت کا عمل اس وقت جاری نہ ہوگا۔
جیسے آج تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے مقام پر موجود ہیں۔ مگر شش جہت میں عمل صرف نبوت محمدیہﷺ کا جاری وساری ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر آج حضرت موسیٰ علیہ السلام زمین پر زندہ ہوتے تو ان کو بھی بجز میرے اتباع کے چارہ نہ تھا۔ بلکہ بعض محققین کے نزدیک تو پہلے انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے عہد میں بھی خاتم الانبیاء ﷺ کی روحانیت عظمیٰ ہی سے مستفید ہوتے تھے۔ جیسے رات کو چاند اور ستارے سورج کے نور سے مستفید ہوتے ہیں۔ حالانکہ سورج اس وقت دکھائی نہیں دیتا اور جس طرح روشنی کے تمام مراتب عالم اسباب میں آفتاب پر ختم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح نبوت ورسالت کے تمام مراتب وکمالات کا سلسلہ بھی روح محمدیﷺ پر ختم ہوتا ہے۔ ’’وکان اﷲ بکل شیٔ علیما‘‘ اور اﷲتعالیٰ ہر شے کی مصلحت کو خوب جانتا ہے۔ آخر میں اس مرتبہ رفیع پر اپنی حکمت اور مصلحت کا اعلان ہے کہ ہم خوب جانتے ہیں کون رسالت کے لائق ہے اور کون آخر الرسل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’وما ارسلنٰک الا کافۃ للناس بشیراً ونذیراً ولکن اکثر الناس لا یعلمون (سبائ:۲۸)‘‘ {اور اے پیغمبر(ﷺ) ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے واسطے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔} یعنی ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے واسطے بشارت اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا۔ لیکن