معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
راہِ خدا کا مقتول جہاد اصغر کا شہید ہوکر ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے لیکن جہاد اکبر میں نفس کے بُرے بُرے تقاضوں ، آرزوؤں اور تمناؤں کا خون کرنے والا اور اپنی جملہ مرضیات کو مرضیات الٰہیہ کے تابع کرنے والا ایسا شہید ہے جو ہمارے اندر زندہ ہوتا ہے اور مقام صدیقیت پر فائز ہوتا ہے ؎ کسی کے زندہ شہید ہیں ہم نہیں یہ حسرت کہ سر نہیں ہے ہمیں تو ہے اس سے بڑھ کے رونا کہ دل نہیں ہے جگر نہیں ہے اوریہ زندہ شہید ایسا مقتول راہ خدا ہوتا ہے کہ دوسرے بندگان خدا اس کے فیض صحبت سے مقتول بارگاہ حق ہوتے ہیں یعنی یہ عشاق دوسرے بندوں کے لیے عشاق گر اور یہ دیوانے دوسرے غلامان عقل کے لیے دیوانہ گر ہوتے ہیں۔ خلاصہ یہ نکلا کہ جو پہلے خود تیغ حق کا مقتول نہیں ہوتا اور اپنے نفس کو نہیں مٹاتا وہ دوسروں کو کیسے حق تعالیٰ کا عاشق و بسمل بناسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خشک اہل علم کی تقریریں بے اثر ہوتی ہیں اور جب کوئی عالم عاشق حق تقریر کرتا ہے تو آگ لگادیتا ہے، مگر لگاتا تو جب ہی ہے کہ خود اس کے لگی ہوتی ہے۔ حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کو فرمایا ہے کہ ؎ نفس خود را کش جہانے زندہ کن خواجۂ کشت است او را بندہ کن ترجمہ:اس نفس کو مغلوب کرو تاکہ اہل دل اور صاحب نسبت ہوکر اپنی روحانیت سے ایک جہاں کو زندہ کرسکو یعنی دوسرے غافل بندوں کو عاشق حق اور ذاکر حق بنا سکو۔ یہ نفس روح پر ظلماً غالب ہے حالاں کہ روح آقا اور نفس غلام ہے بس مغلوب خواجۂ روح کو ا س ظالم نفس کے ظلم سے چھڑاؤ اور اس دشمن کو بندہ اور محکوم بناؤ ؎ دشمن راہ خدا را خوار دار دزد را منبر منہ بردار دار رومؔی