معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
سے مل کر لذیذ اور مفید ہوگیا ۔ اورعشق سےمرادِعشق خداہے(نہ کہ عشقِ مجازی فانی جو ننگ ِ انسانیت ہے خدائے پاک اس سے پناہ میں رکھیں) اور عشقِ حقیقی کی برکت سے نام و نمود اور تکبر و عجب اور ناموس و رعونت و فخر سب روحانی بیماریوں سے نجات مل گئی۔ یعنی عشق حق غیر حق کو سوختہ کردیتا ہے۔ اسی وجہ سے ا ﷲ والے طالبین کے دلوں میں حق تعالیٰ کی محبت پیداہونے کے لیے ذکر بتاتے ہیں۔حکایت احقر مؤلف عرض کرتا ہے کہ ایک عاشقِ مجاز ایک فلم ایکٹریس فردوس پر عاشق تھالیکن عشقِ مجازی میں چوں کہ سکون نہیں ملتا ہر وقت بے چینی اور عذاب ِالٰہی میں مبتلا تھا۔ مجھ سے ملا اور کہا کہ میں اپنی اصلاح چاہتا ہوں۔ احقر نے کہا کہ آپ اجازت دیں تو میں آپ کی بیماری آپ کو بتادوں۔ اس نے کہا: بتائیے احقر نے کہا کہ آپ عشق کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس کو بہت تعجب ہوا اور بے چارے نے اس کو احقر کا کشف سمجھا اور معتقد ہوکر بیعت بھی ہوگیاحالاں کہ یہ کشف نہ تھا اس کی آنکھوں سے ٹپک رہا تھا۔ احقر نے ذوقاً اور وجداناً اس کی آنکھوں کو دیکھ کر محسوس کرلیا کہ یہ کسی کے عشق میں مبتلا ہے یا یہ کہ مزاج ِعاشقانہ رکھتا ہے۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ عشق مجازی میں کافی شہرت رکھتا ہے ۔ بہرحال جب توبہ کرکے وہ ذکر اﷲ میں لگ گیا تو چند دن کے بعد مجھ سے کہا کہ عشق مجازی تو عذاب الٰہی ہے اور خدا کے عشق میں سکون اور اطمینان ہے اور کہا کہ فردوس کے عشق میں رات کی نیند بھی حرام اور سکون قلب بھی چھن گیا تھا اور اب سکون اور اطمینان سے سوجاتا ہوں۔ احقر نے ان کو مبارک باد دی اور ایک شعر ان کو بناکر دے دیا ؎ نام فردوس تھا لیکن تھی سراپا دوزخ ہائے کیوں عمر کو برباد کیا تھا ہم نے مسلمانوں کو چاہیے کہ فلم ایکٹریس کا یا سینما جیسی لعنت گاہوں اور شیطان ہاؤس کا نام فردوس نہ رکھا کریں۔ یہ تو چوری اور سینہ زوری ہے اور عظیم ترین گستاخی ہے۔ اَللّٰھُمَّ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰی۔