حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ان ہی کے صاحبزادے تھے۔ آپ کی ولادت ۱۲۴۴ھ میں ہوئی۔ سات سال کے تھے کہ والد ماجد کا انتقال ہوگیا۔ کچھ عرصہ بعد دہلی جاکر استاذالعلماء حضرت مولانا مملوک علی صاحب نانوتوی کے سامنے زانوائے تلمذتہ کیا، اورمفتی صدرالدین آزردہ سے بھی کچھ کتابیں پڑھیں،شاہ عبدالغنی دہلوی سے علم حدیث حاصل کیا اور گنگوہ میں درس وتدریس کا مشغلہ جاری کیا۔ حضرت حاجی امدادللہ مہاجر مکی ؒ سے اجازت وخلافت حاصل کرکے مسند ارشاد پر متمکن ہوئے۔ مولانا سید عبدالحی صاحب ؒ (۱) نزہۃ لخواطر میں لکھتے ہیں: (۱)مولانا حکیم سید عبدالحی ؒ کے تعارف میں یہ چند سطریں اس خیال سے پیش کی جارہی ہیں کہ ان کاحوالہ اس کتاب میں جابجا آیاہے، مولانا مرحوم رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے تاریخی مذاق، ہندوستان کے علماء ومشائخ اور مشاہیر رجال سے واقفیت اور مرتبہ شناسی میں ابن خلکان الہند کہے جاسکتے ہیں ان کی مشہور اور نادر روزگار تصنیف جو ’’نزہۃ الخواطر‘‘ کے نام سے آٹھ ضخیم جلدوں میں دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد سے طبع ہوئی ہے ،ساڑھے چار ہزار سے زائد علماء داعیان کے تذکرہ پر مشتمل ہے، اسی طرح تاریخ ہند پر ان کی کتاب ’’الہند فی المعہد الاسلامی‘‘ حیدر آباد سے اور علوم وفنون کی تاریخ پر ان کی بلند پایہ تصنیف اور علمی تحفہ’’الثقافۃ الإسلامیۃ في الہند‘‘ دمشق کی علمی اکیڈمی الجمع العلمي العربي کی طرف سے شائع ہوچکی ہیں، اس سلسلہ میں حدیث کا ایک منتخب اور دل آویز مجموعہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے نام سے دمشق سے شائع ہواہے۔ دوسری کتاب ’’منتہی الأفکار‘‘ جو اس کی شرح میں ہے۔ مسئلہ غنا پر بھی ان کی ایک محققانہ کتاب ہے۔ تعلیقات علی سنن ابی داؤد کے نام سے بھی ایک تصنیف ہے، جو غیر مطبوعہ ہے، اس کے علاوہ ’’گل رعنا‘‘ شعراء کے حالات پر اور یادایام (تاریخ گجرات) دوسری تصنیفات ہیں۔ مولانا مرحوم ؒ مولانا فخرالدین خیالی ؒ کے صاحبزادے تھے، ۱۲۴۱ھ (۱۹۲۳ء) میں انتقال کیا، اپنی یادگار میں دو فرزند چھوڑے، ایک ڈاکٹر حکیم مولوی سید عبدالعلی م۱۳۸۱ھ دوسرے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ اور دو صاحبزادیاں ایک سیدہ امۃ العزیز صاحبہ والدہ راقم سطور محمد ثانی، محمد رابع، محمد واضح سلمہا، دوسری سیدہ از تسنیم م محرم ۱۳۹۶ھ مطابق جنوری ۱۹۷۶ء مصنفہ زاد سفر (ترجمہ ریاض الصالحین) ۔ مجموعہ احادیث وغیرہ۔ ’’أحدالعلماء المحققین والفضلاء المدققین لم یکن مثلہ في زمانہ في الصدق والعفاف والتوکل والفقہ والشہامۃ والإقدام في المخاطر والصلابۃ في الدین والشدۃ في المذہب، وکان آیۃ باہرۃ وتعبۃ ظاہرۃ في التقوی واتباع السنۃ النبویۃ والعمل بالعزیمۃ والاستقامۃ علی الشریعۃ ورفض البدع ومحدثان الامور رمحا ربتہا بکل طریق والحرص علی نشرالسنۃ واعلاء شعائر الإسلام والصدع بالحق وبیان حکم الشرعي إنتہت إلیہ الإمامۃ في العلم والعمل وریاسۃ تربیۃ المریدین وتزکیۃ النفوس والدعاء إلی اﷲ واحیاء السنۃ وأماتۃ البدع۔‘‘ (نزہۃ الخواطر ۸/۱۵۰۔۱۵۱) ’’وہ علم وتحقیق کے ماہر علماء میں تھے، اور ایسے فضلاء میں تھے کہ جن کو بحث وتحقیق کا ذوق تھا، ان کے زمانے میں ان جیسا عالم جو صدق اور پاکبازی ،توکل اور فہم دین ، بلند کردار، خطرہ کی پرواہ نہ کرنے والا، دین میں پختگی کا ثبوت دینے والا اور مسلک میں مضبوط کوئی دوسرا شخص نظر نہیں آتا، وہ ایک روشن نشانی تھے، اور اللہ تعالیٰ کا کھلا ہوا انعام تھے، تقویٰ ہو یا اتباع سنت، عزیمت پر عمل ہویا شریعت پر، استقامت، ترک بدعات ہو ںیا ان کا مقابلہ سنت کی نشرواشاعت کی کوشش ہو، اور شعائر اسلام کی بلندی کی فکر، حق کا اعلان ہویا حکم شرعی کی وضاحت۔ ان کی ذات وہ ذات تھی کہ جن میں ہر علم وعمل، قیادت وامامت اور مریدین اور سالکین کی تربیت کاآخری مرتبہ نظر آتاہے، ان میں دعوۃ الی اللہ اور احیائے سنت اور محو بدعت بدرجہ اتم موجود تھی۔‘‘