حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابھی چند گھنٹے پہلے دنیا کا آفتاب غروب ہوکر ساری دنیا میں اندھیرا کرگیا تھا اور اب عشاء سے پہلے علم وعمل ،زہد و تقویٰ،رشد و ہدایت کا آفتاب بقیع کی سرزمین پاک میں غروب ہوکر علم و عمل کی دنیا کو اندھیری کر گیا اﷲ تعالیٰ آپ کی قبر کو روشن سے روشن تر کرے۔ آسماں اس لحد پر شبنم افشانی کرے سبزہ ورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے آپ کو اس زمین پاک میں جگہ ملی جو بقیع کہلاتی ہے وہ بقیع جو انبیاء کرام علیہم السلام کے مقابر کے بعد صدق و اخلاص ،عشق و محبت ،دردو سوز ،ایمان و یقین ،ایثار وقربانی کا سب سے بڑا مدفن ہے۔ دفن ہوگا نہ کہیں ایسا خزانہ ہرگز حضرت مولانا کے انتقال سے صرف مدینہ منورہ کے اہل تعلق ہی نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے خطوں کے اہل تعلق اور تلامذہ مغموم اور متفکر ہوئے اور ایک بڑا خلا محسوس کیا گیا اس وقت کے بعض اخبارات اور رسالوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا خصوصاً مدرسہ مظاہر علوم جو حضرت مولانا ہی کا ایک سرسبز و شاداب باغ ہے اپنے باغباں کے نہ ہونے سے بے برگ و بار معلوم ہونے لگاحضرت مولانا کی دیرینہ تمنا اور آپ کی زندگی کی عزیز خواہش پوری جس خاک کے وہ پتلے تھے اسی کے پیوند ہوکر سرخرو ہوئے۔ آخر کو گل اپنی صرف رہ مبلد ہوئی پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا اور کہنے والے نے کیا خوب کہا۔ آفیں دماغ تجھے خوب نباہی تو لے مرحبا کوچہ دلدار سے مرکر نکلا حضرت مولانا کے انتقال پر تاریخ مظاہر میں جن تاثرات کا اظہار کیا گیا ان کے پڑھنے سے اہل مدرسہ کے گہرے تعلق کا پتہ چلتاہے،ان تاثرات کو ہدیہ ناظرین کیاجاتا ہے : ’’مدرسہ کو اپنی ۶۴ سالہ تاریخ میں حوادث اور صبر آزما امتحانوں سے گزرنا پڑا ان اہم ترین حوادث میں سے دل ہلادینے والا اور ناقابل برداشت سانحہ سال زیر بحث میں یہ پیش آیا کہ حضرت اقدس امام المناظرین ،سید المتکلمین ،فخر المحدثین ،شیخ المشائخ ،جامع الشریعت و الطریقۃ مولانا الحاج خلیل احمد صاحب نے اس دارفانی سے رحلت فرماکر عالم بقاکو اپنے لئے پسند فرمایا ایک وقت وہ بھی تھا جب حضرت اقدس نوراﷲ مرقدہ نے بحیثیت صدر مدرس ہونے کے مظاہر علوم میں تشریف لاکر مدرسہ کو موت وحیات کی کشمکش سے بچایا اور اندرونی مفاسد کا شکار تھا عافیت و سلامتی کے ساتھ اس گرداب بلاسے نکالا تھا لیکن افسوس کہ آج آں قدح بشکست وآں ساقی نمائد