حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سمجھ میں نہیں آتا کیا ہوگا ؟تمھارے بغیر تو میں لکھ نہیں سکتا اور تمھارے جانے کی کوئی صورت نہیں ،اہل و عیال ساتھ ہیں،طویل قیام ہے،میں نے عرض کیا کہ حضرت اب تو یہ خیال ہے کہ میں حجاز چلوں،حضرت قدس سرہٗ کا چہرہ اس وقت مجھے خوب یاد ہے خوشی سے کھل گیا،استنجا پاک کرکے وضو کرکے نیچے تشریف لائے اور بیٹھ کر فرمایا تمھارے خرچ کا کیا ہوگا،میں نے عرض کیا کہ حضرت اسکا تو بالکل فکر نہیں میں ۴۸ھ میں بھی قرض لے کر گیا تھا اب بھی لے لوں گا۔تمھاری مدرسہ میں تنخواہ بھی توکچھ جمع ہے ،میں نے عرض کیا کہ حضرت اس کی فکر نہ فرماویں خرچ کا انتظام ہوجائے گا تنخواہ کا لینا تو جائز نہیں،حضرت نے فرمایا کیوں؟عرض کیا کہ حضرت جن مہینوں کی تنخواہ نہیں لی ان میں اس نیت سے پڑھایا کہ تنخواہ نہیں لوں گا اب اس کے لئے کیا حق ہے ،حضرت نے فرمایا تم نے کوئی درخواست مدرسہ کو دی تم اجیر تھے مدرسہ مستاجرا تمہیں یکطرفہ فسخ اجارہ کا کیا حق تھا جب تک کہ ہم قبول نہ کریں میں نے عرض کیا حضرت اس میں اجارہ کی تو کوئی بات نہیں ،ایک شخص کام کرتے ہوئے یہ نیت کرلے کہ بوجہ اﷲ کر رہا ہوں اس کے بعد اسے معاوضہ لینے کا کیا حق ہے حضرت قدس سرہٗ نے بہت شفقت سے مجھ سے یوں فرمایا کہ بذل میرا ذاتی کام تو نہیں مدرسہ ہی کا کام ہے اگر میں سرپرستان کی منظوری کے بعد تمھیں بکار مدرسہ اپنے ساتھ لے جاؤں اور آمد ورفت کے خرچ کے علاوہ وہاں کے قیام کی تنخواہ مدرسہ سے دلواؤں تو تم کیا کہو گے؟ میں نے عرض کیا حضرت یہ عرض کروں گا کہ بالکل جائز ہے۔‘‘ (آپ بیتی بحوالہ تاریخ مظاہر دوم ۶۶ تا۶۸) اس گفتگو کے بعد حضرت شیخ کا سفر بھی طے ہوگیا اور حضرت مولانا کے ہمراہ حجاز مقدس تشریف لے گئے لیکن جتنی تنخواہ مدرسہ سے لی تھی اور جو کچھ مدرسہ کا ان پر سفر کے دوران خرچہ ہوا تھا وہ ۱۳۸۰ھ تک قسط وار مدرسہ کو واپس کردیا اور اپنی تنخواہ نہ لینے کی نیت کو پورا کردیا۔حیدرآباد میں : آپ کے سفر سے پہلے حیدرآباد کے اہل تعلق کا شدید اصرار تھا کہ آپ حیدرآباد تشریف لائیں،حیدرآباد جانے میں کئی فائدے تھے سب سے بڑا فائدہ مدرسہ کو تھا کہ اس سفر میں مدرسہ کو چندہ ملنے اور اس کی ترقی میں اہل حیدرآباد کی شرکت یقینی تھی اسی خاطر اہل تعلق کا اس سفر پر شدید اصرار بھی ہواکہ حضرت کے نیاز بھی حاصل ہوں گے اور مدرسہ کا کام بھی بن جائے گا اس لئے آپ نے باوجود ضعف و نقاہت اور مشغولیت کے یہ سفر کیا،لوگوں کو آپ کی تاریخ روانگی کی اطلاع ہوگئی تھی اس لئے نزدیک و دور کے سارے اہل تعلق آخری زیارت کی خاطر آرہے تھے اور آنے والے تھے۔ ۱۶ شوال ۴۴ھ مطابق ۲۹ اپریل ۱۹۲۶ء کو حیدرآباد روانگی ہوئی اور طے یہ ہوا کہ باقی قافلہ والے سیدھے بمبئی جائیں گے جن میں آپ کی اہلیہ محترمہ اور ان کے بھائی حاجی مقبول احمد تھے۔ جب آپ حیدرآباد روانہ ہوئے تو گاڑی کی عین روانگی کے وقت معلوم ہوا کہ حضرت کا ایک بکس آپ کے حجرہ میں رہ گیا جس میں خصوصی کاغذات ،کرائے اور امانتیں تھیں اس بکس کو لینے کیلئے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہٗ اور مولانا زکریا