حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لئے گئے وہ زمانہ ایسا سخت تھا کہ بمبئی میں دیوبندی کا علی الاعلان قیام مشکل تھا اس لئے شہر سے باہر دور جنگل میں بمبئی کے بعض مخلص خدام نے خیمہ ڈال کر قیام تجویز کررکھاتھا۔‘‘ (مقدمہ کمال الیشم:۳۲) ۲۸ شعبان ۱۳۳۸ھ کو جہاز نے لنگر اٹھایا، حضرت مولانا نے باوجود انتہائی ضعف ونقاہت اور ناتوانی کے کہ اس وقت آپ کی عمر ۶۹ سال کی ہو رہی تھی جہاز میں اپنے معمولات پوری طرح پورے کئے جہاز اورمکہ مکرمہ میں رمضان کے معمولات کے متعلق حضرت شیخ الحدیث تحریر فرماتے ہیں: ’’حضرت نوراللہ مرقدہ نے اس ضعف وپیری میں درانحالیکہ جہاز کی حرکت سے حضرت کو دوران سر بھی خوب ہوجاتا تھا، جہاز میں کھڑے ہوکر تراویح خود پڑھائی، ۸ رکعت میں نصف پارہ حضرت قدس سرہ سناتے تھے اور بارہ رکعت میں پون سپارہ ناکارہ سناتا تھا مکہ مکرمہ پہنچ کر حضرت قدس سرہ نے ایک بہترین قاری کے پیچھے دوپارے یومیہ از سر نو پورا قرآن سنااور اپنا قرآن پاک نفلوں میں پورا فرمایا۔‘‘ حضرت مولانا جب تک مکہ مکرمہ میں رہے اور رمضان کے ایام رہے بڑے اہتمام سے حرم میں تراویح سنتے تھے حضرت شیخ فرماتے ہیں: ’’حضرت کا مصلیٰ تو امام کے پیچھے ہوتا تھا اور چونکہ تینوں صفیں بہت پہلے سے پھر جاتی تھیںا س لئے ہم لوگوں کو جگہ بہت پیچھے ملتی۔‘‘ حضرت مولانا قاری توفیق کے پیچھے جو بہت اچھا قرآن پڑھتے تھے قرآن سنتے تھے اور فارغ ہوکر مکان تشریف لاتے تھے پورا رمضان اسی طرح گزارا، عید کے دن مولانا محمد حسین چشتی ثم المکی جو حضرت مولانا کے خلفاء میں سے تھے ان کی درخواست پر حضرت مولانا نے حدیث مسلسل بیوم العید کی اجازت عطا فرمائی ، حضرت مولانا کا ارادہ اس مرتبہ بھی مستقل ایک طویل قیام کا تھا اور آپ اس ارادہ سے تشریف لے گئے تھے مگر مکہ مکرمہ پہنچتے ہی حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی ؒ کے ایک صاحب کشف مجاز وخلیفہ مولانا محب الدین ولایتی مہاجر مکی سے ملاقات ہوئی اور معانقہ ہوا، مولانا محب الدین نے ملتے ہی فرمایا: ’’اجی مولانا ارے مولانا آپ کہاں آگئے؟ ہمارے یہاں تو قیامت کبریٰ آنے والی ہے، عمرہ کرکے گھر واپس چلے جاؤ ہمارے یہاں توآگ برسنے والی ہے۔‘‘ مولانا کے اس فرمانے کے بعد حضرت مولانا کے ارادئہ قیام میں تزلزل پیدا ہوگیااور آپ نے اپنے رفقاء اور خدام سے فرمایا: ’’میں تو مدینہ پاک قیام کے ارادے سے آیا تھا مگر مولانا محب الدین صاحب اس کو سختی سے منع کرتے ہیں، میری تو مدینہ پاک کی حاضری کئی دفعہ ہوچکی ہے تم لوگوں کا پہلا حج ہے نہ معلوم پھر مدینہ حاضری ہو نہ ہو اس لئے تم ہو آؤ۔‘‘ (مقدمہ کمال ایشم:۳۳) یہ زمانہ بڑی بدامنی کا تھا مدینہ کا راستہ غیر محفوظ اور سفر دشوار تھا، آپ کے فرمانے پر آپ کے سارے رفقاء مدینہ کے سفر پر تیار ہوگئے اور اللہ کا نام لے کر روانہ ہوگئے حضرت شیخ جو مدینہ منورہ جانے والوں کے ہمراہ تھے فرماتے ہیں: