حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گزشتہ صفحات میں ذکر کیا جاچکا ہے کہ ۱۳۳۴ھ میں حضرت مولانا محمود حسن صاحب ( شیخ الہند)کو مکہ مکرمہ میں گرفتار کرکے مالٹا بھیج دیا گیا تھا اور آپ کے ساتھ مولانا حسین صاحب مدنی، حکیم نصرت حسین صاحب اور مولانا عزیز گل صاحب بھی گرفتار کرکے مالٹا بھیجے گئے تھے، مالٹا میں تین سال رہے وہاں سے حضرت مدنی کے خطوط حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کے نام آیا کرتے تھے، ۲ جمادی الثانی ۱۳۳۸ھ کو یہ بزرگ رہا ہوکر مالٹا سے روانہ ہوئے اور ۲۶ رمضان المبارک کو دیوبند پہنچے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کو اپنے دیرینہ ساتھی اور دل وجان سے عزیز کی رہائی سے بہت زیادہ خوشی اور مسرت ہوئی اور رمضان بعد ہی ملاقات کے لئے دیوبند پہنچے، دیوبند جانے اور مدت کے بعد دو دوستوں کی ملاقات کا حال حضرت شیخ الحدیث تحریر فرماتے ہیں: ’’۲جمادی الثانی ۱۳۳۸ھ میں حضرت شیخ الہند ؒ مالٹاسے روانہ ہوئے اور راستہ میں مختلف شہروں میں قید کی حالت میں قیام کے بعد ۲۰ رمضان المبارک ۱۳۳۸ھ کو بمبئی جہاز سے اتر کر رہا ہوئے اور ۲۶ رمضان المبارک کو دیوبند پہنچے عید سے دوسرے دن یہ ناکارہ سیدی ومرشدی حضرت اقدس سہارنپور ی کے ساتھ دیوبند حاضر ہوا، ان دونوں اکابر کا بغلگیر ہونا بھی خوب یاد ہے اور حضرت شیخ الہند کانہایت مسرت کے ساتھ یہ ارشاد کہ’’مولوی حسین احمد مولانا کے لئے سبز چائے بناؤ۔‘‘ بھی خوب یاد ہے ، حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ نے نہایت مسرت کے لہجے میں فرمایا، حضرت ابھی لاتاہوں اس وقت یہ ناکارہ بھی ہمرکاب تھا ، اور حضرت نے بہت شفقت ومحبت سے مصافحہ کے بعد یاد پڑتاہے کہ سر پر ہاتھ بھی پھیرا۔‘‘(آپ بیتی۴/۲۶)چھٹا حج : حضرت مولانا کو ہمیشہ سے حج وزیارت کا بار بار شوق رہا اور جب بھی موقع ملا تشریف لے گئے، اس مرتبہ بھی شوق رنگ لایا اور حج کے اسباب مہیا ہوگئے، آپ نے مدرسہ کا انتظام تو مولانا عبداللطیف صاحب کے سپرد کیا جو پہلے سے ناظم تھے اور دوشعبان ۱۳۳۸ھ کو حج کا سفر شروع فرمایا یہ آپ کا چھٹا حج تھا، اس سفر میں آپ کے ہمرکاب حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا صاحب کاندھلوی مدظلہٗ العالی ، مولانا منظور احمد خان صاحب مدرس مدرسہ مظاہر العلوم ، مولوی اسحاق بریلوی خادم خاص اور مولانا لطیف الرحمن صاحب کاندھلوی تھے۔ سہارنپور سے بمبئی پہنچے، جہاز میں دیر تھی اس لئے ساتھیوں نے بمبئی میں قیام کیا اور حضرت مولانا نے اہل تعلق کے اصرار پر گجرات وغیرہ کا طویل دورہ فرمایا، آپ کا یہ دورہ بیس ، بائیس دن کا تھا، ہر جگہ آپ نے وعظ ارشاد فرمایا اور بیعت وارادت عوام وخواص کو نوازا، آپ جس جگہ بھی تشریف لے جاتے ایمان ویقین کی شمعیں روشن کرتے اور علم وعمل کے نور سے ایک دنیا مستفید ہوتی۔ حج کے اس سفر کے متعلق حضرت شیخ الحدیث تحریر فرماتے ہیں: ’’بمبئی جہاز کے ملنے میں کچھ تاخیر ہوئی اس لئے کہ حضرت کے ساتھ مجمع بہت تھا تقریبا تین سو کا اور بغیر جملہ رفقاء کے حضرت کو سفر کرنا گوارا نہ ہوا اس لئے دوجہاز چھوڑنے پڑے اور شروع ہی سے تیسرے جہاز کے جو اس وقت تک خالی تھا سب رفقاء کے ٹکٹ خرید