حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان میں وہ طویل مشورہ بھی ہے جو مدرسہ قدیم مظاہرعلوم میں بہت رازدرانہ طریقہ پر کیا گیا، اس مشورہ کاحال حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ العالی اس طرح لکھتے ہیں: ’’سفر سے پہلے ایک ہفتہ تک مظاہر علوم کے کتب خانے میں چار حضرات حضرت سہارنپوری، حضرت شیخ الہند، حضرت اقدس شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری اور مولانا الحاج حکیم احمد صاحب رامپوری کا جو مشورہ ہوتاتھا کہ ان چار حضرات کے علاوہ کسی پانچویں کو وہاں جانے کی اجازت نہ تھی، صبح کو اشراق کے بعد فورا یہ حضرات تخلیہ میں تشریف لے جاتے ، دوپہرکے کھانے کے لئے بار بار حضرت اقدس سرہ کے گھر سے اطلاعات آتی رہتیں اور یہ حضرات فرماتے کہ ابھی آتے ہیں، ظہر کی اذان سے کچھ پہلے اوپر سے اترتے اور جلدی جلدی کھانا نوش فرماکر ظہر پڑھتے اور ظہر کے بعد سے فورا تخلیہ میں تشریف لے جاتے اور عصر کی اذان کے بعد اترتے، عصر کے بعد مجلس نہیں ہوتی تھی لیکن مغرب کے بعد کبھی کبھی ہوجاتی تھی، ہر شخص جستجو میں تھاکہ اتنا طویل مشورہ کس بات کا ہے مگر کسی کو پتہ نہیں تھا اس ناکارہ کا بچپن تھا اور اکابر میں سے ہر ایک سے پوچھتا مگر میرے والے صاحب کو اجمالا معلوم تھا اس لئے اشارۃ انہوں نے کچھ فرمایا جس سے اس ناکارہ کو تسکین ہوئی۔‘‘(مقدمہ اکمال الیشم:۳۳)پانچواں حج : اس مشورہ میں حضرت مولانا محمود حسن صاحب اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کا مع ایک جماعت کے حجاز کا سفر طے ہوا اور ان کی غیر موجودگی میں مقامی کام حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری کے سپرد کردیاگیا ، سفر کے معاملہ میں بعض مصالح کی بناپر یہ صورت اختیار کی گئی کہ مولانا محمود حسن صاحب الگ سفر کریں اور حضرت مولانا الگ سفر کریں تاکہ حکومت کی طرف سے کوئی گرفت ہوتو دونوں ایک ساتھ اس کی زد میں نہ آئیں، اس لئے حضرت مولانا نے وسط شوال ۲۳ھ کوسفر شروع فرمایا اور حضرت مولانا محمود حسن صاحب نے اس کی بعد دونوں بزرگوں کی ملاقات مکہ مکرمہ میں ہوئی، حضرت مولانا محمود حسن صاحب کے ہمراہ حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے علاوہ دوسرے خصوصی خدام بھی تھے۔ سفر سے دوتین روز پہلے ایک شخص جس سے کسی کوکوئی زیادہ واقفیت نہ تھی مجذوبانہ شکل وصورت بناکر آیا اور آپ سے ملا ، اور سفر حج میں ساتھ چلنے کے لئے عرض کیا۔ آپ کو اس پر کچھ شبہ ہوا اور ساتھ لے چلنے سے انکار کردیا، حضرت شیخ فرماتے ہیں: ’’ایک فقیر مجذوبانہ حالت میں صبح کی نماز ہمیشہ حضرت کے ساتھ پڑھا کرتا تھا اور بالکل یکسو وخاموش رہتا ان چیزوں کو دیکھ کر شہر کے کچھ لوگ اس کے معتقد بھی ہوگئے ، جب حضرت اقدس کی روانگی حجاز طے ہوگئی تو تشریف بری سے دوچار یوم قبل اس مجذوب نے حضرت سے درخواست کی کہ میں بھی ہمرکابی میں چلنا چاہتاہوں ، اخراجات کا کوئی بار آپ پر نہ ہوگا صرف اس مبارک سفر میں حضرت کی خدمت اور قدم بوسی کی تمنا ہے اگر اجازت ہو تو ساتھ چلوں، حضرت نے ارشاد فرمایا، سینکڑوں آدمی حج کو جاتے ہیں آپ بھی چلے جائیں، میرے سے اجازت کی کیا ضرورت یہ بھی فرمایا کہ میری تمہارے سے کوئی واقفیت نہیں اور میں اجنبی آدمی کو رفیق سفر نہیں بنایا کرتاہوں۔‘‘ (تاریخ مظاہر ۲/۶)