حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے ممبران میں تغیروتبدل ہوتارہا وہ کمیٹی مدرسہ کاپورا نظام چلاتی رہی، ۱۳۱۴ھ سے حضرت گنگوہی کی سرپرستی اور حضرت مولانا کی صدر مدرسی کے بعد بھی وہ کمیٹی اپنے فرائض انجام دیتی رہی اور ۱۳۱۹ھ تک پورے پانچ سال کسی قسم کا انتشار پیدا نہیں ہوا، بلکہ ان دونوں بزرگوں کے زمانہ میں مدرسہ ہرقسم کی ترقی کرتا رہا، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ فرماتے ہیں: ’’حضرت اقدس گنگوہی نوراللہ مرقدہ کی سرپرستی درحقیقت مدرسہ کی ہر نوع کی ترقی کا دروازہ تھی کہ حضرت کی سرپرستی میں آنے کے بعد سے مدرسے میں ہر سال ہر نوع کا اضافہ ہی ہوتارہا، گزشہ پانچ سال قبل مدرسہ کے کتب خانے میں تقریبا بارہ سو کتابیں تھیں لیکن ان ایام میں تدریجی ترقی کے ساتھ ۱۳۱۷ھ کی کیفیت میں کل کتابوں کی تعداد دوہزار اکیس تحریر ہے۔‘‘ (تاریخ مظاہر اول :۷۹) ان ترقیوں کے اعتراف کے باوجود کمیٹی کے ارکان جو مختلف المزاج ، مختلف الخیال تھے ذہنی انتشار اور پراگندہ خیال کا شکار ہوگئے، ان میں کچھ ایسے تھے جو ان دونوں بزرگوں کے معتقد اور ان کی برکتوں کے معترف تھے لیکن کچھ ایسے بھی تھے جن کو نہ ان بزرگوں سے اعتقاد تھا نہ ان کی بزرگی کے دل سے معترف، ان کے سامنے نام ونمود اور اپنی حیثیت کو بلند کرنے کا منصوبہ تھا ایسے غیر مخلص اور تعلق نہ رکھنے والے ممبران کمیٹی کی یہ کوشش تھی کہ حضرت مولانا صدر مدرس نہ رہیں بلکہ ان کی جگہ ایسا عالم صدر مدرس ہو جو ان ممبران کمیٹی کا ہمنوا ، ان کی آواز میں آواز ملانے والا اور ان کے فیصلوں پر بے چوں وچراعمل کرنے والا ہو، ممبران کمیٹی کا یہ نزاع ۱۳۱۸ھ کے اخیر میں ایک بدنما شکل اختیار کرگیا جس نے آپس کے اختلاف سے نکل کر مدرسے میںہنگامہ کی شکل اختیار کرلی اور یہ ہنگامہ شائستگی ، ادب واحترام ، پاس ولحاظ، وقاروسکون کے حدود پار کرگیا اور ہر دو بزرگوں کے خلاف انہام وبہتان اور بے بنیاد الزام کا پہاڑ بن کرکھڑا ہوگیا اور دیکھتے دیکھتے یہ دینی مدرسہ ایک اکھاڑہ بن گیا، حضرت مولانا نے ممبران کمیٹی کا یہ اختلاف اور مخالف ممبروں کا یہ غیر سنجیدہ طرز عمل اور اس طرز عمل کی وجہ سے طلباء اور اساتذہ کا انتشار درس وتدریس میں بے ترتیبی دیکھی تو حضرت گنگوہی کی خدمت میں صورت حال کی اطلاع کی، حضرت گنگوہی کو اس دینی مدسہ کی بدامنی اور انتشار سے بہت زیادہ رنج وقلق ہوا جس کا آپ اس سے پہلے تصور بھی نہیں فرماتے تھے اور ۲۹ رجب ۱۳۱۹ھ کو آپ نے سرپرستی سے اس بنا پر استعفیٰ دے دیا کہ کوئی اور بدنما شکل اور ناخوشگوار صورتحال نہ پیدا ہو، آپ نے اپنا استعفیٰ نامہ میں تحریر فرمایا: ’’از بندہ رشید احمد گنگوہی عفی عنہ! بخدمت ارباب شوریٰ مدرسہ سہارنپور بعد سلام مسنون اس عاجز کو آپ صاحبوں نے سرپرست بنایاتھا، سو بندہ چھ سال تک رہا، اب آپ کے مدرسہ کی سرپرستی سے معذور رہے، لہٰذا استعفیٰ گزر ان کر امید معافی رکھنا ہے آپ صاحب بھی قبول فرمادیں۔‘‘ (تاریخ مظاہر اول :۹۲) ممبران کمیٹی میں حضرت کے استعفیٰ کے سلسلے میں شدید اختلاف رونما ہوگیا جو لوگ دیندار تھے اور بزرگوں اور مشائخ سے تعلق رکھتے تھے، جن کی نگاہوں میں اس مدرسہ کی عزت بزرگوں سے وابستہ تھی اور جس کی تعمیر وترقی میں حضرت گنگوہی کا ہاتھ تھا اور