حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تمہارے برابر تو کسی کے دست وپانہیں چلتے تم کیوں بے دست وپا اپنے آپ کو لکھتے ہو جس کام کے تم ہو اس میں تکرار نہیں اب فقط نزاع یہ ہی ہے کہ اہل شوریٰ کی زیادت ہو تمہارا کیا حرج ہے تم اپنا کام کرو، حاجی صاحب مصلحت کاکام کرتے ہیں وہ اپنی تدبیر میں رہیں خواہ کچھ ہو، ہماری تمہاری مرضی کے موافق ہو یا مخالف اور اہل شوریٰ خود سب اختیار حاجی صاحب کو دیکر مطمئن ہوگئے تو تم پر کیا بار ہے،پس تم جیسے لوگوں سے تردد کا ہونا بے موقع ہے تم کسی امرمیںلب کشا مت ہو کوئی پوچھے تو جواب دو کہ درس کے باب میں ہم سے پوچھو جو ہمارا کام ہے انتظام وغیرہ کو نہ ہم جانیں نہ ہم دخل دیں اور اندیشہ بدمعاشاں کیوں کرو اس شعر حضرت شیخ المشائخ قدس سرہ کو مد نظر رکھو ؎ قصد ظالم بسوئے کشتن ما دل مظلوم بسوئے خدا او دریں فکر تا بما چہ کند مادریں فکر تا خدا چہ کند اے عزیز ان !روز ازل مقدر ہوچکا ہے، ذرہ ذرہ جو واقع ہوگا مدرسہ کے امور میں بھی بس وہی ہوگا اور ہوکر رہے گا خواہ کوئی دفع کرے یا واقع کرے پھر تم کیوں سرگشتہ ہوتے ہو، ہرچہ از محبوب رسد شیریں بود ، ہم کون ہیں بے اختیار محض ہیں، اگرچہ بظاہر مختار ہیں ہم پر جو گزرے گا وہ عین لطف ہوگا اور جو عالم میں صادر ہوگا وہ عین مصلحت ہوگا خواہ خرابی مدرسہ ہویابقا، خواہ عزت ونصب ہمارا تمہارا ہو خواہ ذلت وعزل تم یہ سب وقائع بازی گر کے سانگ سمجھ کر اپنی درس کے شغل میں بسر کرو، ایں وآن کوزید وعمرو پر چھوڑو ہرکس بہ خیال خوبش خبطے دارد، نہ کوئی مفسد کچھ کرسکے نہ نہ کوئی مصلح کرسکتاہے سب فاعل مختار کرتاہے۔ وماتشاؤون الا أن یشاء اللہ من از بیگانگاں ہر گز نہ نالم ماکہ بامن آں چہ کرد آن آشناکرد وہو ارحم الراحمین، بس تمام ہوا قصد، وہاں کی خبر کامشتاق ہوں ، بشر ہوں اپنے دوستوں کا دعاگو خیر طلب ہوں تم کو کوئی گزند نہیں مطمئن رہو ، نہ مدرسہ کہیں جاوے، ہر شخص کو اپنے اپنے خیال پر نازاں جان کر کالائے بدبریش خاوند کرو اور دم بخود ہوکر می نوش ومی نیوش وچیزے مخروش، فقط سب عزیزوںکو بعد سلام مسنون یہ ہی مضمون جان بخش بعد سلام مسنون فرمادیویں، جو دوستان اہل تدبیر ہیں ان کا شکریہ ادا کرتاہوں بعد سلام مسنون مضمون شکرورضا سے کہہ دیویں اور جس کو چاہو سلام کہہ دینا، یہ وقت اور یہ خروش اہل فساد معین مصلحت ہے، اس کا جس قدر غلغلہ ہوگا اسی قدر مفید ہوگا، انجام خیر ہی خیر اور صائب ودائم رہے گا۔‘‘ رشید احمد۔ (تذکرۃ