حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رہے اور مدارالمہام صاحب کی کوٹھی میں قیام رہا، مدارالمہام صاحب کی محبت وشفقت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچ پائی بلکہ آپ کے لئے انہوں نے آرام وآسائش کا ہر سامان مہیا کیا ، لیکن بھوپال کی آب وہوا آپ کو موافق نہیں آسکی اور وہاں کا قیام آپ کی صحت کے لئے مضر ثابت ہوا،دوسری وجہ آپ کے جی نہ لگنے کی یہ ہوئی کہ آپ کو اپنے اکابر حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی ،حضرت مولانا محمدمظہر صاحب نانوتوی ،حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی اور ان سب میں بڑھ کر اپنے شیخ ومرشد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے اتنا گہرا تعلق اور آپ کے دل میں ان کی اتنی محبت تھی کہ چند دن بھی ان کی نگاہوں سے اوجھل رہنا پسند نہیں کرتے تھے، بھوپال ، سہارنپور سے اتنا دور تھا کہ جلد جلد آنا دشوار سے دشوار تر تھا، بھوپال ہزار علماء کا شہر ہو، اسلامی ریاست ہو، ہر طرح کی سہولت وعافیت ہولیکن وطن کی بات کہاں ، پھر ایسا وطن کہ جس سے بڑھ کر مردم خیز خیروبرکت سے معمور، علماء ومشائخ کا مخزن کوئی اور شہر وریاست اس کے پائے کو نہیں پہنچ سکتی، حضرت مولانا انہیں خیالات میں رہتے، صحت کی خرابی کے ساتھ ساتھ وطن کی یاد، علماء اور مشائخ کی مبارک مجلسوں کی یاد مجبور کرتی تھی کہ آپ پھر سہارنپور تشریف لے آئیں، اس لئے آپ نے اپنے شیخ ومرشد کی خدمت میں اپنی پوری کیفیت تحریر کی اور بھوپال سے سہارنپور آنے کی اجازت چاہی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے جو صرف ایک مرشد وشیخ ہی نہ تھے بلکہ حکیم اور مزاج شناس بھی تھے، اپنے مریدومستر شد سے محبت وتعلق رکھتے تھے اور اندرونی خواہش بھی رہتی تھی کہ یہ جاں نثار وجاں سپار مسترشد زیادہ دنوں کے لئے دور نہ جائے کہ آنے جانے میں کئی دن لگیں، اور خرچ بھی استطاعت سے زیادہ ہو، آپ کو جواب میں تحریرفرمایا: ’’بعد سلام مسنون مطالعہ فرمایند، آج خط آیا حال معلوم ہوا، اور صورت کہ ہوا وہاں کی آپ کو موفق نہیں تو ترک وہاں کاضروری ہے کہ اس جگہ کار ہوا ناموافق ہو ترک کرنا بحکم حدیث ثابت ہے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل :۱۰۰) حضرت مولانا رشید احمد صاحب نے ان محبت آمیز الفاظ کے بعد حسب ذیل الفاظ بھی تحریر فرمائے جن سے آپ کے توازن جامعیت، حکمت وفراست ظاہر ہوتی ہے، آپ نے اس میںفورا ہی آنے کاحکم نہیںفرمایا بلکہ ارشادفرمایا: ’’مگر چونکہ معاش کا قصہ نازک ہے لہٰذا جب تک دوسری جگہ سامان نہ ہوجائے ترک مناسب نہیں، اس واسطے چندے قیام وہاں کا مناسب ہے۔‘‘ (مکتوب مورخ۱۸ ربیع الاول ۱۲۹۳ھ ) حضرت مولانا خلیل احمد صاحب اپنے مرشد کے اس حکم پر بھوپال میں قیام پذیر رہے اور وہ اپنے علمی وتدریسی مشغلہ میں منہمک رہے اور آئندہ کے حکم کے منتظر رہے۔