حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
’’مقربان را پیش بود حیرانی‘‘ بزرگان دین فرماگئے ہیں اور ذات حق تعالیٰ ادراک سے مبرا ہے ، لاتدرکہ الابصار قلب وعقل بشر ادراک سے عاجز ہے۔ دور بیتان بارگاہ انست غیر ازیں پے نہ بردہ اند کہ ہست وہ ذات ہستی مطلق ہے کہ ہستی واطلاق سے بھی بالاتر ہے اطلاق کو بھی وہاں گنجائش نہیں اور جو کچھ کسی کے قلب میں یا عقل میں آیا ہے یا آتاہے وہ سب غیر ہے، ذات پاک اس سے مبرا ہے، پس ایسی حالت میں کسی کیف کا ہونا کیا گنجائش رکھتاہے محض حضور حظ بندے کا ہے اور بس، سو الحمدللہ کہ آپ کو اس سے حصہ حاصل ہے۔ أن تعبد ربک کأنک تراہ۔ (الحدیث) مقصود سب کا رہاہے اور یہی مدعا شارح علیہ الصلاۃ والسلام کا ہے۔ جس قدر اس سے کسی کو میسر ہوا وہ ہی صاحب نصیب ہے سوائے اس کے جو کچھ حالات ہیں وہ کوئی مقصود نہیں، پس بحکم ’’ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ‘‘ نسبت حضور میں کوشش کرتے رہو اور کسی شے کے طالب مت ہو، لطف حق کے امیدوار رہوکہ ہرچہ ساقی ماریخت عین الطافست فقط والسلام بندے کے واسطے بھی دعائے خیر کریں۔ اوربندہ آپ کے لئے دعا کرتاہے۔۱۴ذی قعدہ ۱۳۱۵ھ(مکاتیب رشیدیہ ) حضرت گنگوہی کا یہ مکتوب گرامی نمونہ کے طور پر پیش کیا گیا تاکہ حضرت مولانا کی سلوک ومعرفت میں ترقی اورکمال اورحضرت گنگوہی کاآپ سے گہرا تعلق معلوم ہو اور انشاء اللہ سلوک ومعرفت اورتربیت طالبین اور اس سلسلے کے مکاتیب اپنی جگہ پر آئیں گے، بہر حال عرض یہ کرناہے کہ اس زمانہ میں جب کہ آپ مظاہر علوم کے صدر مدرس ہوچکے تھے اور درس وتدریس میں پوری طرح انہماک تھا اور علم وفضل میں کمال حاصل ہوگیا تھا علم باطن اور معرفت وسلوک میں اعلیٰ مدارج تک پہنچ گئے تھے اور وہ صفات وکمالات حاصل کرلئے تھے جو ایک شیخ کامل میں ہوتے ہیں۔