حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
بیعت ہوتے ہی حضرت مولانا کا دل عشق ومحبت میں ڈوب گیا اور آپ کے دل کی حالت بدلنے لگی، آپ کے دل میں عشق ومحبت کی اور دردو سوز کی جو حرارت تھی وہ آتش فشاں بن گئی، آپ بیعت ہونے کے بعد واپس ہوئے اور اپنے درس وتدریس کے کام میں مشغول ہوگئے، لیکن ذکر الٰہی اورمجاہدہ میں انہماک پیدا ہوگیا، سحر خیزی اور شب بیداری آپ کا معمول بن گئی ، علوم ظاہری کے مشغلے کے ساتھ ساتھ علم باطن کی تکمیل کے لئے آپ برابر کوشاں رہے، مجاہدات میں اتنے مشغول رہتے کہ دیکھنے والا حیرت میں پڑجاتا مولانا عاشق الٰہی صاحب بیعت کے بعد کا نظام اس طرح لکھتے ہیں: ’’غرض استانۂ گنگوہہ سے آپ ایک لطیف روح لے کر واپس ہوئے کہ علم شریعت کے منتہی تھے اور علم طریقت کے مبتدی ، مدرسہ عربیہ میں آپ مدرس تھے کہ طلباء کو درس دیتے تھے اور مکتبۂ معرفت کے آپ طالب علم تھے کہ خالق جل جلالہ کی عظمت اور معرفت کا سبق پڑھا کرتے تھے، دن بھر تشنگان علم کوفقہ وتفسیر کا سبق پڑھاتے اور شب کو ذکر الٰہی سے انس وا لتلذذ حاصل کرتے اور سنسان گھڑیوں میں جب کہ دنیا پڑی سویا کرتی آپ اپنے مولیٰ کے ساتھ راز ونیاز میں مشغول ہوجایا کرتے ، آپ کے شاگردوں ، عزیزوں اور آنے جانے والوں کو پتہ بھی نہ چلا کہ آپ کس دھن میں لگے ہوئے اور کس سوز وگداز میں مبتلا ہیں ؎ نظر کو کیا خبر پردے کے اندر دل لگی کیا ہے؟ کوئی آزاد کیا جانے کسی دل کی لگی کیا ہے؟‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۵۷) حضرت مولانا گنگوہ سے یہ عہد کرکے رخصت ہوئے کہ حضرت نے جوکچھ ارشاد فرمایا یا ارشاد فرمائیں گے اس پر مرمٹوں گا یاجان لگادوں گا اور پھر آپ نے اس پر عمل کرکے دکھلابھی دیا، آپ نے ایک ایک لمحہ کو قیمتی جانا اور مجاہدہ پر مجاہدے کئے، حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کی روایت ہے: ’’حضرت تہجد کے اہتمام کی خاطر سوتے وقت دونوں قدم کے انگوٹھے باہم ملاکر باندھ لیا کرتے تھے کہ وہ بے اختیاری نیند تو آجاتی جس میں پڑ کر ہوش بھی نہیں رہتا اور صحت کے لئے اس کا ہوناضروری ہے ، باقی وہ نیند جس میں کروٹ لینے یا پاؤں سمیٹنے اور پھیلانے کی نوبت آوے نہیں آتی تھی اور بے کلی میں اٹھتے ہی بن پڑتی تھی۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۵۷) حضرت مولانا نے ذکر وشغل ، شب وروز کے مجاہدے ومراقبے اور شیخ ومرشد کے ارشاد کئے ہوئے معمولات کی پابندی کرکے راہ سلوک کوبہت جلد طے فرمایا اور تقریبا نو ، دس برس کے اندر منزل مقصود کو جالیا، اس راہ میں آپ پر کیا حالات گزرے اور کیا مناظر پیش آئے، اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی، اتنا پتہ چلتا ہے کہ حضرت مولانا نے ایک بار فرمایا: ’’مجھے نہ زیادہ واردات پیش آئے اور نہ آخرتک میں سمجھا کہ نسبت سلسلہ کیا چیز ہے؟، بس ایک حالت تھی جو گزررہی تھی۔‘‘