حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تک اسلام کی خدمت کی، اور الحاد وبے دینی کے خلاف فاروقی شان سے ظاہر ہوئے، جہانگیر کے طوق وسلاسل نے بڑھ کر ان کے قدم لیے اور انہوں نے اسیر زنداں ہوتے ہوئے توحید کا نعرہ لگایا، سوتے ہوئے دلوں کو جگایا ، زنداںکے باہر آئے اپنے ارشادات، اپنی دعوت وعزیمت ،جرأت وہمت اور مکاتیب کے ذریعہ امیر سے لے کر غریب تک ،چھونپڑوں سے لے کر شاہی محل تک، عوام سے کرلے وزراء تک حق کی آواز پہنچائی اور دینی انقلاب پیدا کیا۔ آپ کے بعد آپ کے بلند پایہ صاحبزادوں اور ان کے اخلاف، خاندانی بزرگوں اور خلفاء نے اپنی اپنی جگہ پر دینی اصلاح کاکام کیا، اس مبارک خانوادے نے مرزا مظہر جانجاناں شہید اور شاہ غلام علی صاحب جن کے ایک خلیفہ اور مجاز حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کے خاندان کے ایک بزرگ بھی تھے، شاہ غلام علی صاحب کے بعد شاہ ابوسعید صاحب (م۱۳۵۰ھ) ان کے صاحبزادے شاہ احمد سعید صاحب (م ۱۲۷۷ھ) اور شاہ عبدالغنی صاحب (م۱۲۹۶ھ) جو بلند پایہ شیخ وعالم تھے پید اکئے، ان دونوں کے بے شمار خلفاء اور شاگرد گزرے ہیں۔ شاہ احمد سعید صاحب کے شاگردوں میں مفتی عبدالقیوم صاحب بڑھانوی، مولانا احمد علی صاحب سہارنپوری، محدث مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپوری بلند درجہ رکھتے تھے اور ان تینوں سے مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری نے استفادہ کیااور فیض اٹھایا۔ شاہ عبدالغنی ؒ جن سے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری نے مدینہ منورہ میں سند حدیث حاصل کی تھی اور جن سے آپ کے خاندان اور ہم مسلک دوسرے اکابر نے فیض اٹھایا اور شاگرد ہوئے، وہ اتباع سنت اور علم وفضل میں عالی مرتبہ تھے۔ مولانا سیدعبدالحی صاحب ’’نزہۃ الخواطر‘‘ میں حضرت شاہ عبدالغنی صاحب کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’قد إنتہت إلیہ الإمامۃ في العلم والعمل والزہد والحلم والأناۃ مع الصدق والأمانۃ والعقد والعفۃ والصیانۃ وحسن القصد والإخلاص والابتہال إلی اﷲ سبحانہ وشدۃ الخوف منہ ودوام المراقبۃ لہ والتمسک بالأثر والدعاء إلی اﷲ تعالیٰ وحسن الأخلاق ونفع الخلق والإحسان إلیہم والتقلل في الدنیا والتجرد عن أسبابہا، إنتفع بمجلسہ وبرکۃ دعائہ وطہارۃ أناسہ وصدق نیتہ خلق کثیر من العلماء والمشائخ واتفق الناس من أہل الہند والعرب علی ولایتہ وجلالتہ۔‘‘ (نزہۃ الخواطر ۷/۲۸۹) ’’جن خوبیوں میں ان کو امام کا درجہ حاصل تھا وہ ہیں علم وعمل ، زہد اور بردباری ،وقار ، سچائی، امانت داری، پاکبازی،اور احتیاط ،حسن اعتدال اور اخلاص، اللہ تعالیٰ کے سامنے رقت ودعاء اور خوف مراقبہ ،سنت پر عمل ، دعوت الی اللہ کاالتزام، حسن اخلاق، بندگان خدا کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ، اور ان کے ساتھ حسن سلوک دنیا کے معاملات میں زہد اور اس کی چیزوں سے بے تعلق ،ان کی مجلسوں ، ان کی دعاؤں کی برکتوں، ان کی پاک نفسی اور خلوص سے کتنے ہی علماء ومشائخ نے فائدہ اٹھایا اور عرب وعجم کے لوگوں نے ان کی ولایت اور