مرزاقادیانی نے جس انداز میں حکومت برطانیہ کی خدمت انجام دی وہ کچھ انہی کا خاصہ وحصہ تھا۔ چنانچہ مرزاقادیانی سرکار برطانیہ کے متعلق اپنی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کو ایک خط میں یوں تحریر کرتے ہیں کہ:
۱… ’’سرکار دولت مدار ایسے خاندان کی نسبت جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار اور جانثار ثابت کر چکی ہے… اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو ارشاد فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداریوں اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۹۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱)
۲… ’’اب اس تمام تقریر سے جس کے ساتھ میں نے اپنی سترہ سالہ مسلسل تحریروں سے ثبوت پیش کئے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ میں سرکار انگریزی کا بدل وجان خیرخواہ ہوں اور میں ایک شخص امن دوست ہوں اور اطاعت گورنمنٹ اور ہمدردی بندگان خدا کی میرا اصول ہے اور یہ وہی اصول ہے جو میرے مریدوں کی شرائط بیعت میں داخل ہے۔ چنانچہ شرائط بیعت جو ہمیشہ مریدوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کی دفعہ چہارم میں اس کی تشریح ہے۔‘‘
(ضمیمہ کتاب البریہ ص۱۰، خزائن ج۱۳ ص۱۰)
۳… ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریز کی حمایت میں گذرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارہ میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہارات شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب میں اور مصر شام اور کابل اور روم تک پہنچایا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصلی روایات اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۲۷،۲۸، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵،۱۵۶)
۴… ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹)