نبی اور رسول ہے۔ شریعت کے یہ تینوں ماخذ اس کے ثبوت میں شہادت دیتے ہیں کہ مصطفیﷺ خاتم النبیین اور مرسلین ہیں۔
قرآن میں خدا کا قول ہے: ’’محمد تم لوگوں میں سے کسی کے والد نہیں بلکہ خدا کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘
خاتم بکسرتا، پڑھا جائے تو صفت کا اظہار کرتا ہے جو محمدﷺ کو انبیاء میں سب سے آخری بیان کرتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ آپ کے بعد کوئی بھی شخص مقام نبوت کو نہیں پہنچ سکتا۔ لہٰذا اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ ایک ایسی چیز کا مدعی ہے جو اس کی رسائی سے باہر ہے۔ اسی لفظ کو بفتح تا خاتم پڑھا جائے تو بھی عرب علماء لغت کے مطابق اس کے یہ ہی معنی وتعبیر ہوگی۔ حقیقت میں مفسرین ومحققین نے اس کا یہی مطلب لیا ہے اور سنت صحیحہ نے بھی اسی کی تصدیق کی ہے۔ امام بخاری کی صحیح بخاری میں ابوہریرہؓ سے ایک حدیث روایت کی گئی ہے اور انہوں نے خود رسول اﷲﷺ سے سنا ہے۔ فرمایا: ’’بنی اسرائیل کی رہبری نبیوں کے ذریعہ کی گئی۔ ایک نبی کی وفات کے بعد دوسرے نبی نے اس کی جانشینی کی۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘
صحیح بخاری میں ایک دوسری حدیث نقل کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اﷲﷺ سے سنا۔ فرماتے تھے: ’’میری اور مجھ سے قبل آنے والے نبیوں کی مثال اس شخص کے معاملہ جیسی ہے کہ اس نے ایک مکان بنایا۔ خوب اچھا اور خوبصورت لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ یہ مکان دیکھنے آتے اور مکان کی تعریف وتوصیف کرتے۔ مگر کہتے وہ ایک اینٹ کیوں نہ رکھ دیتے تم؟ رسول خدا نے کہا وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘ مسلم کی روایت کے مطابق جابر سے روایت ہے کہ رسول خدا نے کہا: ’’اس اینٹ کی جگہ میں ہوں۔ میں آیا اور انبیاء پر مہر لگادی۔‘‘
(بخاری کتاب المناقب ج۱ ص۵۰۱، مسلم ج۲ ص۲۴۸)
یہی اجماع المسلمین ہے اور ضرورتاً مذہب کی ایک حقیقت معلومہ بن گیا ہے۔ خاتم النبیین کی تفسیر میں امام ابن کثیر کا قول ہے: ’’اﷲتعالیٰ نے ہم سے اپنی کتاب میں کہا ہے۔ جیسا کہ اس کے رسول نے سنت متواترہ میں کہا کہ اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ انہیں جان لینے دو کہ اس کے بعد جو کوئی اس مقام کا دعویٰ کرتا ہے وہ کذاب، مکار، فریبی اور دجال ہے۔‘‘ علامہ آلوسی بغدادی نے اپنی تفسیر میں کہا: ’’اور یہ حقیقت کہ وہ (محمد رسول اﷲﷺ) خاتم النبیین ہیں۔ قرآن پاک میں بیان کی گئی ہے۔ سنت نے اس کی تصدیق کی ہے اور امت کا بالاتفاق اس پر