آئے ان میں سے ایک کا نام خیراتی تھا اور وہ بھی زمین پر بیٹھ گئے۔‘‘
(تریاق القلوب ص۹۴، خزائن ج۱۵ص۳۵۱)
ناظرین! مرزاقادیانی کی خودپسندی شرارت اور مولوی عبداﷲ غزنوی مرحوم کی تواضع ملاحظہ فرمائیے اور دونوں کے اخلاق کا موازنہ کیجئے۔ لطف یہ ہے کہ مرزاقادیانی مولوی صاحب کو ’’ولی اﷲ اور صاحب کشف وکرامات بھی مانتے ہیں۔‘‘ (تذکرہ ص۳۰)
اور ان کے ایک کشف کو اپنی صداقت کا نشان بھی ٹھہراتے ہیں۔
(ازالہ اوہام ص۷۰۵، خزائن ج۳ ص۴۸۰)
اور ان کی خدمت میں استفادہ اور دعا کے لئے حاضر بھی ہوا کرتے تھے۔ لیکن خود پسندی کا یہ عالم ہے کہ ان کا چارپائی کی بائیں جانب بیٹھنا بھی ناگوار خاطر ہے۔
۳… ’’اور انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے۔ خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام شیرعلی ہے۔ اس نے مجھے لٹا کر میری آنکھیں کھولیں اور صاف کیں اور میل اور کدورت اور کوتہ بینی کا مادہ نکال دیا اور میری آنکھوں کو چمکتے ہوئے ستارے کی طرح بنادیا۔‘‘ (تریاق القلوب ص۹۵، خزائن ج۱۵ ص۳۵۲)
ناظرین! فرشتے کی صاف کی ہوئی آنکھوں کا حال معلوم کرنے کے لئے حوالہ ذیل ملاحظہ کیجئے۔
’’مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحب مع چند خدام کے فوٹو کھنچوانے لگے تو فوٹو گرافر نے آپ سے عرض کیا کہ حضور ذرا آنکھیں کھول کر رکھیں۔ وگرنہ تصویر اچھی نہیں آئے گی اور آپ نے اس کے کہنے پر ایک دفعہ تکلیف کے ساتھ کچھ زیادہ کھولنے کی کوشش بھی کی مگر وہ پھر اسی طرح نیم بند ہوگئیں۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ دوم ص۷۷)
نوٹ: مزید معلومات کے لئے مرزاقادیانی کی فوٹو ملاحظہ فرمائیے۔ جو اکثر مرزائیوں کے گھر چسپاں ہوتی ہے اور فرشتے کی صاف کی ہوئی آنکھوں کی داد دیجئے۔
۴… ’’خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص مٹھن لال نام جو کسی زمانہ میں بٹالہ میں اسسٹنٹ تھا۔ کرسی پر بیٹھا ہوا ہے اور ارد گرد اس کے عملہ کے لوگ ہیں۔ میں نے جاکر کاغذ اس کو دیا اور یہ کہا کہ یہ میرا پرانا دوست ہے۔ اس پر دستخط کر دو۔ اس نے بلاتأمل اس پر دستخط کر دئیے۔ یہ جو مٹھن لال دیکھا گیا ہے۔ مٹھن لال سے مراد ایک فرشتہ ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۵۶۰)