پچاس کوس بگوشہ شمال۱؎ مشرق فروکش ہوئے اور ایک گاؤں اسلام پور آباد کیا اور حکومت وقت سے جاگیر پائی۔ سکھوں کے ابتدائی زمانہ میں میرے پردادا مرزاگل محمد ۸۵گاؤں کے مالک تھے۔ پردادا کی وفات کے بعد میرے دادا مرزاعطا محمد گدی نشین ہوئے۔ ان کے وقت لڑائی میں سکھ غالب آگئے اور ہماری ریاست پر بزور قابض ہوگئے۔ یہاں تک کہ دادا صاحب کے پاس صرف ایک گاؤں قادیان رہ گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد سکھوں نے پھر قادیان پر حملہ کیا اور بڑی تباہی مچائی۔ مکانوں کو مسمار کردیا اور مسجدوں کو دھرمسالے بنالیا اور ہمارے بزرگوں کو اوّل قید اور پھر جلاوطن کردیا اور ہمارے بزرگ پنجاب کی ایک ریاست میں جاگزیں ہوئے۔ تھوڑے عرصہ بعد دشمنوں کے منصوبے سے میرے دادا کو زہر دے دی گئی اور پھر رنجیت سنگھ کے زمانہ میں میرے والد مرزاغلام مرتضیٰ قادیان واپس آئے۔ ان کو پانچ گاؤں واپس ملے۔ غرض ہماری پرانی ریاست خاک میں مل کر آخر پانچ گاؤں رہ گئے۔ پھر بھی بلحاظ پرانے خاندان کے میرے والد، گورنر جنرل کے دربار میں کرسی نشین تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انہوں نے سرکار انگریزی کی خدمت میں پچاس گھوڑے مع پچاس سواروں کے اپنی گرہ سے خرید کردئیے تھے اور آئندہ گورنمنٹ کو عند الضرورت امداد کا وعدہ بھی دیا تھا اور سرکار انگریزی سے بجا آوری خدمات عمدہ عمدہ چٹھیات خوشنودی مزاج ان کو ملی تھی۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۲۰، کتاب البریہ ص۱۳۴تا۱۴۶، خزائن ج۱۳ ص۱۷۶،۱۷۷)
’’انگریزوں کے زمانہ میں ہماری جاگیر ضبط کر لی گئی اور سات سوروپیہ نقد کی اعزازی پینشن باقی رہ گئی اور ہمارے دادا کی وفات پر ۱۸۰ رہ گئی اور پھر تایا صاحب کے بعد بالکل ختم ہوگئی۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج۱ ص۴۱)
مرزاقادیانی کی والدہ
’’اس عظیم الشان انسان کی ماں دنیا میں ایک ہی عورت ہے جو آمنہ خاتون کے بعد اپنے بخت رسا پر ناز کر سکتی ہے۔ دنیا کی عورتوں میں جو ممتاز خواتین ہیں۔ ان میں آمنہ خاتون اور حضرت چراغ بی بی صاحبہ بھی دو عورتیں ہیں۔ جنہوں نے ایسے عظیم الشان انسان دنیا کو دئیے جو ایک عالم کی نجات اور رستگاری کا موجب ہوئے۔‘‘ (حیات النبی مرتبہ یعقوب علی تراب ج۱ ص۱۴۳)
۱؎ لاہور سے گوشہ مغرب اور جنوب میں واقع ہے۔ وہ دمشق سے ٹھیک ٹھیک شرقی جانب پڑتی ہے۔ (دیباچہ خطبہ الہامیہ ص ح، خزائن ج۱۶ ص۲۳)