ثانیاً: بفرض محال جس وقت حضور قبلہ اقدس کی طرف سے مرزاقادیانی کو من عباد اﷲ الصالحین لکھا جاتا ہے۔ اس وقت مرزاقادیانی کی ابتدائی منزل تھی۔ جس کے متعلق گذشتہ صفحات میں ارشاد ہوچکا ہے۔ اس کے عقائد مسلمانوں کے سے تھے اور اس کے ہوش حواس صحیح الدماغ انسان جیسے تھے۔ مرزاقادیانی ایک قصیدہ معہ ایک مراسلہ کے حضور قبلہ اقدس کی خدمت میں ارسال کرتے ہیں۔ چند اقتباسات درج ذیل ہیں۔ جس سے مرزاقادیانی کے ابتدائی عقائد کا پورا پتہ لگ سکتا ہے۔
اقتباس از مراسلہ مرزاقادیانی
از مکرمی اخویم مولوی حکیم نوردین صاحب السلام علیکم اوشان بذکر اخیرآں مکرم رطب اللسان مے مانند عجب کہ اوشاں دراندک صحبت دلی محبت واخلاص بآں مکرم پیدا کردہ اند چند بار ایں خارق امر ازاں مخدوم ذکر کردہ اند کہ مرایک درود شریف برائے خواندن ارشاد فرمودند کہ ازیں زیارت نبویﷺ خواہد شد چنانچہ ہماں شب مشرف بزیارت شدم۔ والسلام!
الراقم: خاکسار غلام احمد از قادیان
حاصل ترجمہ
مکرمی حکیم نوردین کی طرف سے السلام علیکم وہ جناب کے ذکر خیر سے زباں کو تازہ کہتے ہیں۔ تھوڑی سی صحبت سے بہرہ یاب ہوکر آپ سے دلی محبت وعقیدت مخلصانہ کہتے ہیں۔ انہوں نے چند دفعہ آپ کی اس کرامت کا ذکر کیا ہے کہ مجھے آپ نے برائے زیارت حضور نبی کریمﷺ ایک درود شریف پڑھنے کے لئے فرمایا تھا۔ چنانچہ اسی رات میں زیارت سے مشرف ہوا۔ ’’والفضل ماشہدت بہ الا عدائ‘‘ بزرگی وہ جس کا دشمن اعتراف کریں۔ اسی قسم کی عقیدت ظاہر کی اور قصیدہ بھی ارسال کیا۔
قصیدہ مرزائی قادیان بمدحت فرید الزمان
اے فرید وقت درصدق وصفا
باتو باد آں رو کہ نام او خدا
برتو بارد رحمت یار ازل
در تو تابد نور دلدار ازل
ما مسلمانیم از فضل خدا
مصطفیٰ مارا امام و پیشوا