اور اس کا ثبوت کہ مرزائی امت یہودیوں کے مشابہ ہے یہ ہے کہ خود مرزاقادیانی نے اس کو تسلیم کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
۱۴۶… ’’میں (مرزاقادیانی) اسرائیلی بھی ہوں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۲۴، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۴۴۱)
’’ہماری جماعت بنی اسرائیل سے مشابہ ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۵۳۳ طبع۳)
’’افغان شکل وشباہت میں یہودی نظر آتے ہیں۔‘‘
(مسیح ہندوستان میں ص۹۷، خزائن ج۱۵ ص ایضاً)
اب اس کے بعد مفکر اسلام حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کی بھی مرزائی امت کے متعلق شہادت ملاحظہ ہو۔ حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں:
۱۴۷… ’’قادیانیت اسلام کی چند نہایت اہم صورتوں کو ظاہری طور پر قائم رکھتی ہے۔ لیکن باطنی طور پر اسلام کی روح اور مقاصد کے لئے مہلک ہے۔ اس کا حاسد خدا کا تصور کہ جس کے پاس دشمنوں کے لئے زلزلے اور بیماریاں ہوں۔ اس کا نبی کے متعلق نجومی کا تخیل اور اس کا روح مسیح کے تسلسل کا عقیدہ وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں اپنے اندر یہودیت کے اتنے عناصر رکھتی ہیں۔ گویا یہ تحریک ہی یہودیت کی طرف رجوع ہے۔ روح مسیح کا تسلسل یہودی باطنیت کا جزو ہے۔ ایران میں ملحدانہ تحریکیں اٹھیں اور انہوں نے بروز حلول ظل وغیرہ اصطلاحات وضع کیں۔ تاکہ تناسخ کے تصور کو چھپا سکیں۔‘‘ (حرف اقبالؒ ص۱۲۳)
(چنانچہ قادیانی نبوت اور مسیحیت وغیرہ کا تمام تر دارومدار ہی بروز، حلول، ظل، استعارہ، مجاز، تاویل باطل، تسلسل، روح مسیح وغیرہ پر ہی ہے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کی کتب وتحریرات سے ظاہر ہے۔ مثلاً دیکھو آئینہ کمالات اسلام ص۲۵۵، خزائن ج۵ ص ایضاً)
مرزاقادیانی کے مندرجہ بالا مسلمہ اقوال سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے
۱…
یہ کہ میں مسیح موعود نہیں ہوں۔
۲…
یہ کہ مسیح ابن مریم علیہ السلام کی آخری زمانہ میں آنے کی قرآن شریف میں پیش گوئی ہے۔
۳…
یہ کہ آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہؐ کی رو سے مسیح علیہ السلام ہی جسمانی طور پر نہایت جلالیت کے ساتھ دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔
۴…
یہ کہ حضور علیہ السلام نے اﷲ کی قسم کھاکر فرمایا کہ تم میں ابن مریم ہی نازل ہوگا۔