۱۲۴… مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل قریباً ساڑھے دس بجے دن ’’ایک بڑا دست‘‘ آیا اور نبض بالکل بند ہوگئی۔ (بدر مورخہ ۲؍جون ۱۹۰۸ئ)
’’ہیضہ شامت اعمال کا نتیجہ ہے۔‘‘ (تذکرہ ص۲۰ طبع۳)
۱۲۵… مرزاقادیانی کے بیٹے مرزابشیر احمد اور مرزاقادیانی کی بیوی کی شہادت۔ ’’چنانچہ مرزابشیر احمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔‘‘ خاکسار مختصر عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ۲۵؍مئی ۱۹۰۸ء یعنی پیر کی شام کو بالکل اچھے تھے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد خاکسار باہر سے آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ والدہ صاحبہ کے ساتھ پلنگ پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے۔ میں اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا… رات کے پچھلے پہر صبح کے قریب مجھے جگایا گیا… تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود اسہال کی بیماری سے سخت بیمار ہیں اور حالت نازک ہے۔ جب میں نے پہلی نظر حضرت مسیح موعود کے اوپر ڈالی تو میرا دل بیٹھ گیا۔ کیونکہ میں نے ایسی حالت آپ کی اس سے پہلے نہ دیکھی تھی… اتنے میں ڈاکٹر نے نبض دیکھی تو ندارد۔ سب سمجھ کہ وفات پا گئے… مگر تھوڑی دیر کے بعد نبض میں پھر حرکت پیدا ہوئی۔ مگر حالت بدستور نازک تھی… نو بجے کے بعد حضرت صاحب کی حالت زیادہ نازک ہوگئی اور تھوڑی دیر کے بعد آپ کو غرغرہ شروع ہوگیا… خاکسار نے یہ روایت… جب دوبارہ والدہ صاحبہ کے پاس برائے تصدیق بیان کی تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے وقت آیا تھا… کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور ایک یا دو دفعہ رفع حاجت کے لئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے… تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا۔ تم اب سو جاؤ۔ میں نے کہا نہیں میں دباتی ہوں۔ اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا۔ مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جا سکتے تھے… اس لئے چارپائی کے پاس ہی بیٹھ کر آپ فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی۔ جب آپ قے سے فارغ ہوکر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ لیٹتے لیٹتے پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہوگئی۔ اس پر میں نے گھبرا کر کہا: ’’اﷲ یہ کیا ہونے والا ہے۔‘‘ تو آپ نے کہا یہ وہی ہے جومیں کہا کرتا تھا۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ کیا آپ سمجھ گئیں تھیں کہ حضرت صاحب کا کیا منشاء تھا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا۔ ہاں… تھوڑی دیر تک غرغرہ کا سلسلہ جاری رہا اور ہر آن سانسوں کے درمیان کا وقفہ لمبا ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ آپ نے ایک لمبا سانس لیا اور آپ کی روح پرواز کر گئی۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۹تا۱۲، روایت نمبر۱۲)