اب آپ کے سامنے علمائے کرام کے صرف وہ الہامات اور بیانات پیش کئے جاتے ہیں کہ جن کو مرزاقادیانی نے بھی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔
۱۱۷… ’’کسی نے اس عاجز کو کافر ٹھہرایا اور کسی نے اس کا نام ملحد رکھا۔ جیسا کہ مولوی عبدالرحمن صاحب خلف مولوی محمد لکھو کے والا نے اس عاجز کا نام ملحد رکھا… ان لوگوں نے اس پر بس نہیں کی۔ بلکہ یہ بھی چاہا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے بھی اس بارہ میں کوئی شہادت ملے۔ تو بہت خوب۔ چنانچہ انہوں نے استخارے کئے… پس مولوی عبدالرحمن صاحب اور ان کے رفیق میاں عبدالحق صاحب غزنوی… کی زبان پر جاری ہوگیا کہ یہ عاجز جہنمی ہے اور ملحد ہے اور ایسا کافر ہے کہ ہرگز ہدایت پذیر نہیں ہوگا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۵۴،۲۵۵، خزائن ج۳ ص۲۲۸)
(اس مقام پر ان حضرات کے استخارہ پر مرزاقادیانی نے حسب عادت اپنی طرف سے بہت سے غلط حاشیئے چڑھائے ہیں۔ ایسے حاشیئے کہ جن کا نفس استخارہ سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ ہاں صاحب! اگر شیطان کسی گمراہ شخص کے کان میں کہہ دے کہ مرزاقادیانی سچے ہیں تو پھر بقول آپ کے استخارہ صحیح ہے اور اگر خداتعالیٰ اپنی راہنمائی میں اپنے کسی مقبول بندے کو فرمائے کہ مرزاقادیانی جھوٹے ہیں تو پھر نعوذ باﷲ استخارہ غلط۔ صد حیف بریں دانش!)
۱۱۸… ’’میاں عبدالحق صاحب غزنوی اور مولوی محی الدین صاحب لکھووالے اس عاجز کے حق میں لکھتے ہیں کہ ہمیں الہام ہوا ہے کہ یہ شخص جہنمی ہے۔ چنانچہ عبدالحق صاحب کے الہام میں تو صریح ’’سیصلیٰ ناراً ذات لہب‘‘ موجود ہے اور محی الدین صاحب کو یہ الہام ہوا ہے کہ یہ شخص ایسا ملحد اور کافر ہے کہ ہرگز ہدایت پذیر نہیں ہوگا… غرض ان دونوں صاحبوں نے اس عاجز کی نسبت جہنم اور کفر کا فتویٰ دے دیا اور بڑے زور سے اپنے الہامات کو شائع کر دیا۔ ہم اس جگہ ان صاحبوں کے الہامات کے متعلق کچھ زیادہ لکھنا ضروری نہیں سمجھتے۔ صرف اس قدر تحریر کرنا کافی ہے کہ الہام رحمانی بھی ہوتا ہے اور شیطانی بھی اور جب انسان اپنے نفس کو دخل دے کر کسی بات کے لئے استخارہ کرتا ہے تو شیطان اس وقت اس کی آرزو میں دخل دیتا ہے اور کوئی کلمہ اس کی زبان پر جاری ہو جاتا ہے اور دراصل وہ شیطانی کلمہ ہوتا ہے۔ یہ دخل کبھی انبیاء اور رسولوں کی وحی میں بھی ہو جاتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۲۸، خزائن ج۳ ص۴۳۹، مکتوبات احمدیہ ج۵ نمبر۲ ص۹۱، بنام حکیم نورالدین)