خلیفہ صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’بعض لوگ یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ احمدی ختم نبوت کے قائل نہیں۔ یہ بھی محض ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ احمدیوں کا یہ ہرگز عقیدہ نہیں کہ رسول کریمؐ، خاتم النبیین نہیں تھے۔ جو کچھ احمدی کہتے ہیں۔ وہ صرف یہ ہے کہ خاتم النبیین کے وہ معنی جو اس وقت مسلمانوں میں رائج ہیں۔ نہ تو قرآن کریم کی آیت ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ پر چسپاں ہوتے ہیں اور نہ ان سے رسول کریم کی عزت اس طرح ظاہر ہوتی ہے۔ جس عزت کی طرف اس آیت میں اشارہ کیاگیا ہے۔ احمدی جماعت خاتم النبیین کے وہ معنی کرتی ہے۔ جو عربی لغت میں عام طور پر متداول ہیں۔‘‘ (پیغام احمدیت ص۹)
پیغام محمدیت: افسوس کہ خلیفہ قادیان کا مندرجہ بالا بیان اس قدر گول مول اور منافقت آمیز ہے کہ جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ چنانچہ خلیفہ قادیان نے اپنی مذہبی کمزوری اور بزدلی کے ماتحت اس امر کے اظہار وتشریح کی جرأت نہیں کی کہ قادیانی امت کے نزدیک ختم نبوت سے کیا مراد ہے۔ مسلمانوں میں ختم نبوت کے کیا معنی رائج ہیں۔
قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت ختم نبوت کے متعلق کیا ناطق اشارہ کرتی ہے۔ عربی لغت اس بارے میں کیا فیصلہ دیتی ہے۔ خلیفہ صاحب نے دراصل یہ جرأت اس لئے نہیں کی کہ اس اظہار حقیقت میں ان کے خانہ ساز مذہب کی رسوا کن نقاب کشائی ہوتی تھی۔
حضرات! یہ حقیقت ہے کہ مرزائی امت کی انہی ایمان ربا چالبازیوں کے پیش نظر، نباض فطرت، ترجمان حقیقت علامہ اقبالؒ نے اس فرقہ کے متعلق فرمایا ہے۔
۳۶… ’’مسلمان ان تحریکوں کے معاملہ میں زیادہ حساس ہے۔ جو اس کی وحدت کے لئے خطرناک ہیں۔ چنانچہ ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پر اسلام سے وابستہ ہو۔ لیکن اپنی بناء نئی نبوت پر رکھے اور بزعم خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے۔ مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے ایک خطرہ تصور کرے گااور یہ اس لئے کہ اسلامی وحدت ختم نبوت سے ہی استوار ہوتی ہے… یہ ظاہر ہے کہ اسلام جو تمام جماعتوں کو ایک رسی میں پرونے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ ایسی تحریک کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں رکھ سکتا۔ جو اس کی موجودہ وحدت کے لئے خطرہ ہو اور مستقبل میں انسانی سوسائٹی کے لئے مزید افتراق کا باعث بنے۔ اس قبل اسلامی مؤبدیت نے حال ہی میں جن دو صورتوں میں جنم لیا ہے۔ میرے نزدیک ان میں بہائیت، قادیانیت سے کہیں زیادہ مخلص ہے۔ کیونکہ وہ کھلے طور پر اسلام سے باغی ہے۔ لیکن